مکرم صاحب میرے کولیگ اور دوست کلیِم کے روم میٹ تھے۔
یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب میں وفاقی دارالحکومت میں مواصلات کے ایک قومی ادارے میں بطور سوفٹ ویئر انجینئر ملازم ہوا کرتا تھا۔ سیکٹر جی ایٹ فور اتوار بازار کے قریب ایک کمرے کے فلیٹ میں کلیم اور مکرم صاحب رہائش پذیر تھے جب کہ میری رہائش اسی سیکٹر میں کچھ فاصلے پر بلیو سٹار کے قریب ہوا کرتی۔ ہم تینوں چھڑے چھانٹ اپنے اپنے آبائی علاقوں سے ملازمت کی غرض سے اسلام آباد رہائش پذیر تھے۔
میری اور مکرم صاحب کی عمر میں کم از کم بیس برس کا فرق ہوگا، میں ان دنوں چوبیس پچیس کے پیٹے میں تھا جبکہ مکرم صاحب شاید پینتالیس سینتالیس کے لگ بھگ ہونگے۔ کلیم اور مکرم صاحب کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے تھا، دونوں جب میٹھی سرائیکی بولتے تو میں بہت محظوظ ہوا کرتا۔ پیشے کے لحاظ سے ہم تینوں کا تعلق ایک ہی ادارے کے ایک ہی شعبے سے تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ بہ نسبت میرے یا کلِیم کے، مکرم صاحب کو ادارے میں ملازمت اسی ادارے کے ایک بڑے افسر محترم اے آر اعوان صاحب کی سفارش پر ملی تھی۔ اعوان صاحب کا تعلق بھی ڈیرہ سے ہی تھا سو کسی تعلق سے مکرم صاحب کی درخواست انکے پاس آئی اور مکرم صاحب کی یونیورسٹی کی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے اعوان صاحب نے مکرم صاحب کو بطور سینئیر کمپیوٹر پروگرامر بھرتی کروا کر اپنے لئیے نیکیوں کا بندوبست کر لیا۔
اعوان صاحب اب ادارے سے باقاعدہ ریٹائیر ہو چکے تھے لیکن ادارے نے انکی قابلیت اور اعلٰی انتظامی صلاحیتیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں کانٹریکٹ پر دوبارہ ہائیر کر کے ایک ذیلی ادارے کی سربراہی سونپ دی تھی۔
اب ہوتا یہ کہ دن بھر میں اور کلِیم ادارے کیلئیے نئے سوفٹ وئیر پراجیکٹس پر کام میں مصروف رہتے، اور مکرم صاحب آفس کے ایک کونے میں ڈیسک پر کمپیوٹر رکھے دن بھر نہ جانے کیا کرتے رہتے۔ آج تک کسی کو علم نہ ہو سکا تھا کہ وہ کونسے پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں یا کام کر بھی رہے ہیں یا نہیں؟ حکومتی سطح پر ان دنوں آئی ٹی کا بہت دور دورہ ہوا کرتا تھا، آئی ٹی سے تعلق رکھنے والوں کی بہت قدر افزائی ہوتی اور انکے لئیے ایسے ایسے الاؤنسز جاری ہوتے کہ ہم خود بھی سر کھجانے پر مجبور ہو جاتے، مثال کے طور پر ہمارا ایک الاؤنس کمپیوٹر الاؤنس کہلاتا تھا جو کہ ہمیں صرف اس لئیے ملتا تھا کہ ہمیں دن بھر اپنی نظر کمپیوٹر سکرین پر رکھنی پڑتی ہے اور دونوں ہاتھوں سے مسلسل ٹائپنگ کرنی پڑتی ہے وغیرہ۔ بہرحال مکرم صاحب کو بھی یہ سب الاؤنسز باقاعدہ ملتے لیکن آج تک انکے کام کا نتیجہ ہمیں تو درکنار انکے کسی بڑے افسر کو بھی نہ پتہ چل سکا۔
بعض اوقات یوں ہوتا کہ کوئی سینئیر ڈائریکٹر مکرم صاحب کو بلا لیتا، جب ان سے انکی ذمہ داریوں اور کارکردگی کے بارے میں سوال پوچھتا تو مکرم صاحب کا ایک ہی سادہ سا جواب ہوتا ‘سر، میں اے آر اعوان صاحب کا آدمی ہوں’ ۔ ۔ڈائریکٹر یہ جواب سن کر سر پکڑ لیتا اور مکرم صاحب کا کیس پھر کبھی دیکھنے کا سوچ کر جانے دیتا۔ یوں مکرم صاحب سالہا سال سے ادارے کے ہومیو پیتھک یعنی بےضرر اور بے فائدہ ملازم تھے۔
مکرم صاحب کا کردار میرے لئیے ہمیشہ دلچسپی کا باعث ہوا کرتا کہ بذاتِ خود انتہائی عمدہ، علمی اور فلسفیانہ ذہن کے مالک تھے، بعض اوقات سرائیکی میں اپنی ذاتی شاعری سناتے اور میں بے اختیار داد دینے اور سر دھننے پر مجبور ہو جاتا۔ تعلیم کی کمی کا بھی کوئی مسئلہ نہ تھا کہ گومل یونیورسٹی سے اچھے وقتوں میں ماسٹرز کر رکھا تھا۔ نمازِ پنج وقتہ کے پابند
اور کبھی کوئی شرعی عیب نہ دیکھا۔ بس یہ کہ انتہا کے سست واقع ہوئے تھے۔ آخری بار بستر کی سلوٹیں بھی شاید کئی مہینے قبل دور کی ہونگی، رضائی کا اس قدر کونہ ہی اٹھاتے جتنا اٹھا کر باہر نکل سکتے تھے۔ کمرہ ہر وقت کاغذوں، فائلوں اور کتابوں سے اٹا پڑا رہتا۔ پہلے پہل تو کلیم خود صفائی کرتا رہا لیکن جب اسنے دیکھا کہ اس کام میں اس کا ہاتھ نہیں بٹایا جا رہا تو اسنے بھی چھوڑ دیا۔
ڈیرہ غازی خان میں مکرم صاحب کی ایک بوڑھی والدہ رہائش پذیر تھی، شاید انکے دیگر بہن بھائی بھی وہیں ہوں لیکن مجھ سے کبھی ذکر نہ کیا، مجھے اس قدر ضرور معلوم تھا کہ مکرم صاحب کی اپنی والدہ سے کم ہی بنتی ہے۔ والدہ مزاج کی تیز واقع ہوئی تھیں جبکہ مکرم صاحب اسکے بالکل متضاد اور نرم مزاج۔ مکرم صاحب کی روایتی سستی اور کاہلی پر والدہ سخت سست کہا کرتیں اور یوں مکرم صاحب کی اپنی والدہ سےان بن ہی رہتی، لیکن والدہ کو خرچہ ہر ماہ باقاعدگی سے بھیجتے، خود آٹھ آٹھ دس دس مہینے ڈیرہ کا چکر نہ لگاتے اور اسلام آباد کے اس چھوٹے سے ایک کمرے کے فلیٹ میں پڑے رہنے کو ترجیح دیتے۔ میں اکثر کہا کرتا کہ مکرم صاحب آپ تو وطن میں ہو کر بھی یوں ہیں کہ جیسے دبئی میں رہتے ہوں تو مکرم صاحب ہنس پڑتے اور کہتے کیا کروں بڑھیا بہت لڑتی ہے اور مجھ سے لڑائی نہیں ہوتی۔
صرف ایک چیز ایسی تھی جو مکرم صاحب کو ممتاز کرتی تھی اور وہ تھی ان کی اعوان صاحب سے عقیدت، اعوان صاحب کا نام سن کر جیسے مکرم صاحب کے رگ وپے میں بجلی دوڑ جاتی، اگر لیٹے ہوتے تو اٹھ کر بیٹھ جاتے اور اگر بیٹھے ہوتے تو اٹھ کر کمرے میں تیز تیز چلنے لگتے۔ مکرم صاحب اعوان صاحب کے بارے میں گھنٹوں باتیں کر سکتے تھے۔ بعض اوقات تو یوں لگتا کہ انکو اعوان صاحب سے عشق ہے۔ اعوان صاحب کا ذکر یوں روشن آنکھوں اور مسکراہٹ کے ساتھ سنتے جیسے کوئی محبوب کا ذکر سنا کرتا ہے۔
سنا تھا کہ ایک دو بار مکرم صاحب کا احوال اعوان صاحب تک بھی پہنچا اور انکو اپنے چھوٹے افسروں کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑی۔ لیکن اسکے باوجود اعوان صاحب نے کبھی مکرم صاحب کو بلا کر تنبیہہ نہ کی بس ایک دو بار پیغام ضرور بھجوایا کہ لوگوں کو اپنے بارے میں ‘اعوان صاحب کا آدمی’ نہ بتایا کرو۔ یہ سلسلہ سالہا سال سے چل رہا تھا۔ ایک دن خبر ملی کہ مکرم صاحب کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے، مکرم صاحب مغموم ہوئے لیکن ضبط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، بس اتنا کہا کہ ایک نا ایک دن ہم سب نے جانا تو ہے لیکن اب ہم سے کوئی لڑائی کرنے والا نہیں رہا۔
اس دن کے بعد میں چند روز کیلئیے آبائی گھر واپس چلا گیا جب ویک اینڈ گزار کر واپس آیا تو دیکھا کلیم اور مکرم صاحب کا وہ بے ترتیب اور گرد سے اٹا ہوا کمرہ بے حد صاف ستھرا اور با ترتیب لگ رہا ہے۔ میں حیران رہ گیا۔۔کلیم سے پوچھا کہ یہ انقلاب کیسے آ گیا؟ تو اس سے پہلے کہ مکرم صاحب کچھ کہتے کِلیم بولا کہ تم خود بوجھو۔۔۔مکرم صاحب کی طرف دیکھا تو انکی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ میں نے مزید حیرت سے کہا تو کیا تعزیت کیلیئے اعوان صاحب آئے تھے؟ کلیم مسکرایا اور بولا۔ ۔ ہاں! تم درست سمجھے ہو۔ مکرم صاحب تو جیسے نشے سے سرشار تھے۔ مجھے زور زور سے گلے ملے اور کہنے لگے کہ یار آپ سوچ سکتے ہو کہ اس غریب خانے پر اعوان صاحب تشریف لا سکتے ہیں؟ مجھے تو اب دنیا میں کسی اور شے کی خواہش ہی نہیں رہی۔ اسکے بعد مکرم صاحب کئی دنوں تک اس خمار میں سرمست دیکھائی دئیے۔ اعوان صاحب کی آمد نے انکی آتش ِ عشق کو دو آتشہ کر دیا تھا۔
مجھے مکرم صاحب کی شخصیت میں تضاد کبھی سمجھ نہ آ سکا، ہر قسم کی اخلاقی برائی سے دور اور انتہائی تعلیم یافتہ ہونے اور ذہنی بالیدگی کے باوجود انکے اندر شخصیت پرستی کا ایک ایسا پہلو تھا جس نے انکے سامنے فرضِ منصبی کو بھی چندھیا کر رکھ دیا تھا۔
ایک دن مجھے کلیم کا فون آیا کہ یار جلدی سے آ۔۔کلِیم گھبرایا ہوا لگ رہا تھا سو میں نے بھی زیادہ تفتیش مناسب نہ سمجھی فوراً موٹرسائیکل باہر نکالا اور انکے فلیٹ پر جا پہنچا، کلیم موٹرسائکل کی آواز سن کر تیز تیز قدموں باہر آیا اور کچھ کہے بغیر میرا ہاتھ پکڑ کر اندر لے آیا۔۔۔اندر کمرے میں مکرم صاحب بستر پر اوندھے لیٹے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ کچھ سمجھے بغیر میں نے کندھے پر ہاتھ رکھا تو جلدی سے اٹھےاور مجھے گلے لگا کر دھاڑیں مار مار کرپھر رونے لگے کہ بھائی ہم برباد ہو گئے۔۔بھائی ہم تو جیتے جی مر گئے۔
کلیم نے بتایا کہ اعوان صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے، تشویشناک حالت میں ہسپتال لے جایا گیا ہے۔ مجھے بھی تشویش ہوئی مگر مکرم صاحب اس دن پوری رات نہ سو سکے، رات بھر جائے نماز بچھا کر گڑگڑا کر دعائیں مانگتے رہے، صبح مگر خبر آ گئی کہ اعوان صاحب جانبر نہ ہو سکے ہیں۔ مکرم صاحب کیلئیے قیامت کی گھڑی تھی، ان کیلئیے جیسے اس دنیا میں کچھ باقی بچا ہی نہ تھا۔
تدفین ڈیرہ غازی خان ہی کی گئی۔ مکرم صاحب جنازے میں شریک ہوئے اور اگلے دن آفس میں استعفیٰ بھجوا دیا۔ سامان لینے آئے تو میں اور کلیم ملے ۔ ۔تعزیت کی۔ بعد ازاں میں نے کہا کہ مکرم صاحب استعفے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ جاب تو جاری رکھ سکتے تھے، کہنے لگے کس کے لئیے اس شہر میں آئیں؟ اب اس شہر کی جانب منہ کرنے کو جی نہیں کرتا۔
مکرم صاحب واپس چلے گئے، وہاں جہاں انکے اعوان صاحب منوں مٹی تلے دفن تھے۔ ۔ مکرم صاحب پھر کبھی اسلام آباد نہیں آئے نہ کبھی میرا رابطہ ہو سکا، لیکن مجھے ایک یقین اور ایک گمان ضرور ہے، یقین یہ کہ جب تک زندہ رہیں گے اعوان صاحب کی قبر کی مٹی خشک نہیں ہونے دیں گے اور گمان یہ کہ جب خود بھی دنیا سے رخصت ہونگے تو قبر میں پہلے سوال کے جواب میں شاید کہہ ڈالیں کہ۔ ۔ ‘سر میں اعوان صاحب کا آدمی ہوں’۔
0 Comments
اللہ اللہ۔
درست کہا گیا ہے کہ محبت کی پہچان مقدار سے نہیں معیار سے ہوتی ہے۔ محبت تھوری ملے پر سچی ملے تو زندگی سنور جاتی ہے۔
اور کسی سے اتنی عقیدت رکھنا بھی آسان نہیں ہے، سچی عقیدت ہو تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ انسان آپ کی طرف مائل لازمی ہوتا ہے۔
اگرچہ زاتی ہُنر ہونے اور فرض میں کوتاہی کرنے پر اُسے اچھا نہ سمجھا
جائے، پر بات تب بنتی ہے جب اُس کی عقیدت نے یار کے گزر جانے کے بعد کام ہی چھوڑ دیا۔
اللہ سبحان و تعالیٰ نے کسی کو بھی بے مقصد پیدا نہیں کیا۔
کہا جاتا ہے کہ دوستی کرنا اتنا آسان ہے کہ مٹی کے ساتھ مٹی لکھنا، اور دوستی نبھانا اتنا مشکل ہے جیسے پانی سے پانی لکھنا۔ سبحان وتعالیٰ ہمیں مخلص دوست عطا فرمائے ۔
لے او یار حوالے رب دے، میلے چار دناں دے،
اُس دن عیدبارک ہو سی، جس دن فیر مِلاں گے۔