یہ سن دو ہزار کی دہائی کے وسط میں ان دنوں کی بات ہے جب پاکستانی اخبارات انٹرنیٹ
میٹرک کے دو سالوں میں عمران سیریز کے ساڑھے پانچ سو ناولز پڑھنے کے باوجود امتیازی نمبروں سے
استنبول سے پانچ گھنٹےکی فلائیٹ کے بعد ٹرکش ائیر لائن کی فلائیٹ اٹینڈنٹ نےاعلان کیا کہ تقریباً نصف
'مزید اعلٰی تعلیم' کیلئیے نئے نئے لاہور پہنچے تو ایک دن گلبرگ سے گزرتے ہوئے ہم چار دوستوں
وہ دہم جماعت کے سیکشن ڈی کے سب سے آخری ڈیسک کے آخری کونے میں بیٹھا کرتا، اب
مکرم صاحب میرے کولیگ اور دوست کلیِم کے روم میٹ تھے۔ یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب
گُرنیک سنگھ بھی چل بسا، چوبیس برس سے زائد ہوا چاہتے ہیں کہ اس پردیس دھرتی پر
استنبول سے پانچ گھنٹےکی فلائیٹ کے بعد ٹرکش ائیر لائن کی فلائیٹ اٹینڈنٹ نےاعلان کیا کہ تقریباً نصف
باپ سروں کا سایہ ہوتا ہے، "ایک سائبان کی طرح" چھوٹی داڑھی اور سر پر نماز کی جالی
وہ دہم جماعت کے سیکشن ڈی کے سب سے آخری ڈیسک کے آخری کونے میں بیٹھا کرتا، اب
"اب انکی طبیعت کیسی ہے؟" کمرے میں موجود پچیس چھںیس سال کے نوجوان نے پوچھا۔ ۔ "کچھ خاص