صاحبو، بات کچھ یوں ہے کہ تمام تر دستیاب ثبوتوں اور گواہوں کے بیانات کی روشنی میں ہمارا یہ گمان اب یقین میں بدلتا جا رہا ہے کہ بنانے والے نے جب ہماری تخلیق کا ارادہ کیا ہو گا تو ہماری اسمبلی پر متعین فرشتے نے اپنی شفٹ ختم ہونے کے انتظار میں نورانی وال کلاک کی طرف ذرا نظر گھما کر دیکھ لیا ہوگا اور اسی دوران ہماری وہ چِپ مِس ہو گئی جس میں سالگرہوں کا ڈیٹا سٹور ہوتا ہے۔
صاحب کیا کیجئیے، کتنے ہی جتن کر لئیے لیکن ہمیں یہ نگوڑی سالگرہیں یاد رہ کر نہیں دیتیں۔ دوسروں کی سالگرہ جات تو ایک طرف، اگر کوئی یاد نہ کروائے تو ہمیں اپنی سالگرہ بھی گزرنے کے دو دن بعد یاد آئے۔ اوپر سے مسئلہ یہ کہ یہ سالگرہ ایسی چیز ہے جس سے مر کر بھی جان چھٹنے نہ پائے، آپ چاہے مرتے مر جائیں لیکن اگر آپ سے غالب یا اقبال کی طرح کوئی چھوٹا موٹا تاریخی کام سرزد ہو گیا ہے تو مرنے کے سو سو سال بعد بھی صد سالہ سالگرہ کا جشن منایا جاتا رہے گا۔
ہمارے ساتھ سالہا سال سے یہی سمسیا چلی آ رہی ہے، اب چونکہ زمانہ بدل گیا ہے اور نئی ٹیکنالوجی نے کافی حد تک یاد رکھنے کا ذمہ اپنے سر لے لیا ہے تو ہم نے بھی پچھلے سال نئی ٹیکنالوجی کا سہارا لیتے ہوئے مستقل شرمندگی سے بچنے کا جتن کر لیا۔ ۔سو، اس بار ہم نے موبائل فون میں بالترتیب ایک مہینہ پہلے، ایک ہفتہ پہلے، چار دن، تین دن، دو دن اور پھر ایک دن پہلے کے یاد دہانی کے نوٹیفیکشنز سیٹ کر لئیے۔ موبائل فون ریمائینڈر کے دور سے قبل یہی جتن ہم اپنے ورک ڈیسک، گاڑی کے ڈیش بورڈ، بیڈ سائیڈ ٹیبل اور بٹوے اور حتی الوسع جہاں جہاں ممکن ہو خاتونِ خانہ کی سالگرہ کا دن کی یاد دہانی کے سِٹکی نوٹس چپکا کر کیا کرتے تھے۔
شو مئیِ قسمت کہ سالگرہ کے دن سے ٹھیک دو دن قبل ہمیں کام کے سلسلے میں اوٹاوا (مقامی تلفظ آٹووا) جانا پڑ گیا، اور پھر دو دن مصروفیت کچھ ایسی رہی کہ آفس سے واپس ہوٹل آنے تک شاپنگ کا نہ وقت باقی رہتا اور نہ توانائی۔ ۔لہذا سوچا کہ واپس جا کر کچھ نہ کچھ ‘بستو بند’ کر لیں گے، مگر ہوا یہ کہ گھر واپسی لیٹ نائیٹ ہوئی۔ قصہء مختصر۔۔آٹھ دس ریمائینڈرز سیٹ کرنے کے باوجود بھی ہم خاتونِ خانہ کی سالگرہ کا تحفہ خریدنے کے اعزاز سے محروم رہ گئے۔ خیر، صبح ہوئی۔۔سالگرہ کا دن، اور ہم خالی ہاتھ و خالی الدماغ، اور کچھ تو سمجھ نہ آیا خاتون سے گذارش کی کہ چلئیے ہمارے ساتھ آپ کو کہیں لئیے چلتے ہیں، انہیں ساتھ لے کر ایک مال پہنچے، اندر داخل ہوئے تو ذہن دس مرلہ پلاٹ کی طرح پھر خالی، کچھ سمجھ میں نہ آئے کہ کیا گفٹ خریدیں؟ یونہی چلتے چلتے سامنے جیولری کا ایک معروف سٹور نظر آیا تو کہا کہ چلئیے یہیں چلتے ہیں، سٹور میں داخل ہو کر دل پر ہاتھ رکھا اور ذہن ہی ذہن میں یاکریڈٹ کارڈ تیرا ہی آسرا کہہ کر عرض کیا کہ آج آپ کی سالگرہ ہے، جو چاہے پسند کر لیجئیے، کوئی لمٹ نہیں جس پہ چاہے ہاتھ رکھئیے، لمحہ بھر کو دل کی دھڑکن اپنا راستہ بھولی تو سہی لیکن ذہن نے ایک جھٹکے میں دھڑکن کو ڈپٹ کر درست راستہ دکھلا دیا کہ ذہن ارادہ کر چکا تھا کہ آج جائیدادیں لُٹا دی جائیں گی۔ بہرحال خاتونِ خانہ نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور بخوشی آفر قبولنے سے منع کر دیا۔
واپس گھر آئے تو بچوں نے اپنی تعلیمی اور غیر تعلیمی سرگرمیوں سے چھٹی لے رکھی تھی، پوچھا کہ ایسا کیوں کیا؟ تو جواب ملا آج ماں کی سالگرہ ہے آج صرف ممی کو وقت دیا جائے گا، ہمیں کچھ حیرت سی ہوئی، بہرحال یہ ایک نئی بات تھی۔
شام ہوئی تو بچوں نے پروگرام بنایا کہ آج ممی کھانا نہیں بنائیں گی بلکہ آج اپنے پسندیدہ ریستوران جا کر کھانا کھایا جائے گا۔ ریستوران گئے، حسبِ توقع بہت اچھا کھانا تھا وہیں پر بچوں نے اپنی ماں کو اپنے تحائف پیش کر دئیے جو انہوں نے اپنی پاکٹ منی جمع کر کے خرید رکھے تھے، ہم نے بھی اپنا نقد حصہ شاملِ حال کر دیا۔ ریستوران سے واپس آ رہے تھے تو گاڑی میں خاتونِ خانہ نے نمناک آنکھوں سے سب کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ ان کی سب سے بہترین سالگرہ تھی۔ یہیں پر ہمارے ذہن کو کچھ حیرت کا جھٹکا سا لگا۔ اس سے پہلے کئی سال تک ہم نے سالگرہ پر نہایت قیمتی تحائف دئیے تھے، کام سے فارغ ہو کر مہنگے ریسٹورینٹ بھی گئے تھے مگر اس بار ایسا کیا مختلف ہوا کہ یہ ہہ سب سے اچھی سالگرہ ہو گئی؟
ذہن اس ادھیڑ بن میں ذرا الجھا تو عقدہ یہ کھلا کہ اصل قیمت سالگرہ پر تحفے کی نہیں بلکہ انمول ہونے کے احساس، قابلِ قدر ہونے اور شایانِ شان عمدہ سلوک کی ہوا کرتی ہے۔
پینسیلین ایجاد کرنے والے ڈاکٹر الگزینڈر فلیمنگ نے ایک بار کہا تھا کہ بطور سائینسدان ہماری صرف جدوجہد ہوتی ہے ہم قسطنطنیہ کے درویشوں کی طرح اپنا ہاتھ اوپر اٹھا کر دائروں میں مسلسل گھومتے رہتے ہیں اور پھر ایک لمحہ ایسا آتا ہے کہ کائنات کی تمام توانائیاں اور فریکوئینسیاں یکجا ہو جاتی ہیں اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب آپکو عطا ہو جاتی ہے۔ جب ایک پینٹر سے شہ پارہ سرزد ہو جاتا ہے، جب ایک سائینسدان، ایک انجنئیر کوئی ایسی دریافت کر بیٹھتا ہے جس سے نسلیں فیض پاتی ہیں، جب ایک اداکار اپنی زندگی سے سب بڑی پرفارمینس دے بیٹھتا ہے اور آسکر کا حقدار قرار پاتا ہے۔ اس لمحے کی عطا ایک عام انسان کو لیجنڈ بنا دیتی ہے۔
تو صاحبو، یوں سمجھئیے کہ ہمیں بھی وہ لمحہ عطا ہوا تھا، جب ہم مال گئے اور جیولری کی دوکان میں ہم نے خالی الذہنی میں کہا کہ اپنے لئیے جو چاہئیں خرید لیں، یہ ایک گھریلو خاتون کو اسکے انمول ہونے کا احساس تھا اور ایک عورت کیلئیے اس سے زیادہ خوبصورت شے کوئی نہیں ہوتی، تو اس لمحے وہ احساس وارد ہوا۔ گھر پہنچے تو دیکھا کہ بچوں نے اپنی تمام تر مصروفیات ماں کیلئیے ترک کر دی ہیں اس چیز نے اہم اور قابلِ قدر ہونے کے احساس کو جگہ دی اور دیارِ غیر میں جہاں کسی کے پاس دوسروں کیلئیے وقت نکالنا مشکل ہوتا ہے ایسے میں کنبے کے ہمراہ مل کر بیٹھ کر پسندیدہ جگہ پر ڈنر کرنا اس سے خوبصورت بات بھلا اور کیا ہو سکتی ہے؟
تو صاحبو، یہ تحریر پڑھتے ہوئے اگر آپ ایک مرد ہیں تو اپنی ‘کامل بہتر’ کو انمول، قابلِ قدراور اہم ہونے کا احساس دیجئیے، انہیں بتائیے کہ وہ آپ اور اس کنبے کیلئیے کتنی اہم ہیں اور کنبے کیلئیے انکی محنت، مشقت اور ایثار نظر انداز نہیں ہو رہا۔
اور اگر آپ ایک خاتون ہیں تو اپنے نصف بہتر کو ایک بار صرف اتنا کہہ دیجئے کہ آپ اس کنبے کیلئیے جو کرتے ہیں، اس پر آپ کا بہت شکریہ۔