لڑکپن میں گرمیوں کی چھٹیوں میں ننھیالی گاؤں جانا ہوتا تو دلچسپی کی دیگر سرگرمیوں کے علاوہ گاؤں کے قریب واقعہ بابا حیدر شاہ کی خانقاہ پر میلہ دلچسپی کا خصوصی مرکز ہوتا۔ آس پاس کے دیہات خانقاہ سے خصوصی عقیدت رکھتےاور یوں سال بھر جاری صدقے کی نذر نیاز کےعلاوہ یہ میلہ علاقے میں چند دن کیلئیے خصوصی معاشی سرگرمیوں کا مرکز ٹھہرتا۔ ہمارے لیئے بچپن میں میلے میں جو چیز سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث بنتی وہ ایک عدد موت کا کنواں تھا جس میں بیک وقت دو کاریں کنویں کی دیواروں پر دوڑا کرتیں
سالہا سال شو دیکھتے رہنے اور فطری تجسس کے ہاتھوں مجبور ہماری توجہ شو انجوائے کرنے کی بجائے آہستہ آہستہ انکے روز مرہ معاملات اور انتظامی امور پر مبذول ہونے لگی کہ اس سارے گورکھ دھندے کو آخر چلایا کیسے جاتا ہے؟ اور اس کاروبار میں کس کا کیا کردار ہے؟ تو صاحب مذکورہ موت کے کنویں میں دونوں کاریں چلانے والے ڈرائیورز کو چیمپئین یا استاد کہا جاتا اور یہ دونوں حضرات سب سے زیادہ قابلِ احترام ٹھہرتے انکی چال میں ایک مخصوص شان اور اندازِ گفتگو میں ہلکی سی رعونت ہوتی۔ دونوں ڈرائیور حضرات کا نام باہر ‘لاؤڈ سپیکر میڈیا’ پر بار بار دہرایا جاتا اور انکی میلے میں آمد کو اہالیانِ علاقہ کی خوش قسمتی گردانا جاتا۔ شو کے مالک کو ماسٹر جی کہا جاتا جو باہر ٹینٹ میں بیٹھ کر حقہ پیتے اور ‘ہم پیشہ معززین’ سے ملاقاتیں فرماتے۔
ماسٹر جی اور چیمپیئنز کے علاوہ موت کے کنویں کی سب سے قابلِ ذکر ہستیاں وہ ڈانسر کھسرے ہوتے جن کا کام گھسے پٹے فلمی گانوں پر بھدا ڈانس کر کے تماشائیوں کا دل لبھانا ہوتا۔ ان ڈانسروں میں ایک ڈانسر ایسا ہوتا جو نسبتاً دوسروں سے ہینڈسم ہوتا (یا پنجابی میں جسے منہ متھے لگنا کہتےہیں) موت کے کنویں کے اس پورے شو کا اصل کماؤ یہی ڈانسر ہوتا جسںکا کام کسی ایک تماشائی کو تاڑ کر اس کی جیب خالی کروانا ہوتا۔ جب مطلوبہ تماشائی ٹرانس میں آ جاتا اور دھڑا پیسے لٹانے شروع کر دیتا تو اسکی دیکھا دیکھی دیگر دیہاتی بھی مقابلے میں پیسے پھینکنا شروع ہو جاتے۔ یوں اکثر دو یا تین پارٹیوں میں اس ہینڈسم ڈانسر کی توجہ حاصل کرنے کے چکر میں پیسے لٹانے کا مقابلہ شروع ہو جاتا اور یوں سادہ لوح دیہاتی جیبیں خالی کر کے اگلے دن پھر پیسے لٹانے آ پہنچتے۔ یوں اس ہینڈسم کا واحد کام ڈانس کرنا اور پیسے نکلوانا ہوتا۔
اگر کوئی تماشائی ڈانسروں کو دیکھ کر ضرورت سے زیادہ مچلتا تو ماسٹر جی کو اطلاع بھیجی جاتی اور ماسٹر جی فوراً چار ‘سادہ کپڑوں والے’ بھیجتے جو مذکورہ تماشائی کو دونوں بازؤں سے پکڑ کر نیچے خیموں میں لے جاتے اور دیگر تماشائیوں کی نظروں سے چند لمحوں کیلئیے گمشدہ کر دیتے۔ ایسے میں باقی تماشائیوں کو خفیف سے تشویش گھیر لیتی اور ان میں سے کوئی ذرا زیادہ ڈسپلن کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ نظر آنے لگتا۔
اس دوران کوئی بڑا نوٹ گرتے دیکھ کر ڈانسر مخصوص ادائے دلبرائی سے زلف لہراتا تو شو کا ‘اینکرپرسن’ لاؤڈ سپیکر پر کہتا ‘فنکارہ کا شکریہ قبول کیجئیے’ اور جسکو شکریہ کہا گیا ہوتا وہ چند لمحات کیلئیے کرہِ ارض کا ٹھیکیدار بن جاتا۔ ٹارگٹ پورا ہوتے ہی شو کا ‘اینکرپرسن’ زور سے کنویں کی دیواروں کو استحکام دینے والے کوئی پائپ کھٹکھٹاتا اور تمام ڈانسرز کو مخصوص انداز میں کہتا کہ ‘تمام فنکارائیں باہر آ جائیں شو شروع ہوا چاہتا ہے۔
ایسے میں دونوں چیمپئینز ناپ تول کر قدم اٹھاتے آتے اور شیرڈ ہیچ بیک کاریں (جسکو شو کا اینکر پرسن ٹوٹا کار (ٹیوٹاکار) بتا کر ڈس انفارمیشن پھیلا رہا ہوتا) سٹارٹ کرتے اور یوں شو شروع ہوتا اور چند منٹ کی کرتب بازی اور کنویں کی دیواروں پر دو کاروں کی ریس لگانے کے مناظر سے تھرل کا چسکا ہورا ہو جاتا اور یوں شو اختتام پذیر ہوتا اس دوران جب تک شو جاری رہتا دیگر ڈانسرز بھدے میک اپ کئیے باہر پلیث فارم پر جا کر ناچتے رہتے، شو ختم ہوتے ہی تمام ڈانسرز اپنے مخصوص کردار نبھانے گھسی پٹی تالوں پر ناچنے پھر اندر پہنچ جاتے۔
صاحبو، حالیہ دنوں میں ایک اور وزارت میں ایک وردی والے ریٹائیرڈ صاحب کی تقرری کا جان کر نہ جانے کیوں ذہن میں وہی ‘دو ٹوٹا کار والا موت کا کنواں’ آ گیا یوں لگا کہ شو کے اصل چیمپئین کوئی اور ہیں، کاریگری کوئی اور دیکھاتا ہے، داد کوئی اور سمیٹتا ہے ، جبکہ ہینڈسم ڈانسر کا کام صرف عوام کی جیبوں سے پیسہ نکلوانا ہے، شو میں میڈیا کا کردار بھی تقریباً وہی ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے، اینکر پرسنز حسبِ عادت غیر تصدیق شدہ اور کچی پکی معلومات یعنی ڈس انفارمیشن پھیلانے میں مصروف ہیں، ناپسندیدہ عناصر سے نمٹنے کا طریقہ بھی وہی جانا پہچانا یعنی بندہ غائب کرنا ہے، ڈانسرز گھنٹی بجتے ہی باہر جا کر پلیٹ فارم پر ناچنا شروع کر دیتے ہیں اور شو کے اختتام پر اندر تشریف لے آتے ہیں۔ لیکن موت کےکنویں اور ملکی صورتحال میں بہرحال ایک فرق ضرور ہے۔۔
وہ یہ کہ موت کے کنویں میں چیمپئینز کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی ہوتی ہے، مگر یہاں عوام کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی ہے!