کسی دور میں شہروں میں پرچی جوا کھیلنے کی لت عروج پر تھی تو ایک شہر میں کسی شخص کی پرچی لگ گئی یعنی اسکا جوئے کی بازی میں انعام نکل آیا۔ اسکے یاروں دوستوں نے اسے تنگ کر مارا کہ سچ بتاؤ پرچی کا نمبر کس پیر صاحب نے بتایا ہے؟ وہ شخص جب تنگ آ گیا تو اس نے جان چھڑانے کیلیئے ایسے ہی اندازے سے کہہ دیا کہ ریلوے لائن کے ساتھ قبرستان کے پاس جو جھونپڑیاں ہیں نمبر بتانے والے بابا جی وہیں رہتے ہیں۔ یہ بات عام ہو گئی اور پرچی جوا کھیلنے کے شوقین حضرات جوق در جوق بابا جی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔
ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک گروپ نے جھونپڑیوں میں ایک نوے پچانوے سال کے بزرگ کو بیٹھے دیکھ لیا جو دھوپ میں بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ فوری طور پر جا کر بابا جی کے کندھے دبانا شروع کردئیے کہ بابا جی ہمیں بھی نمبر بتائیں، بابا جی کے تو فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا، ادھیڑ عمر میں بیماریوں سے اوازار کھووں کھووں کرتے باباجی نے تنگ آکر گالیاں دینا شروع کردیں کہ تم اکٹھے ہی پندرہ بیس لوگ مجھے تنگ کرنے آ گئے ہو جاؤ۔ ۔ جا کر اپنا کام دھندا کرو، جواریوں نے فوراً حساب لگایا کہ ہو نا ہو بابا جی نے اشارتاً نمبر بتایا ہو لہٰذا نمبر 15 اور 20 نوٹ کر لیا گیا۔
جب مزید اصرار کیا تو تنگ آ کر بابا جی نے کہہ دیا کہ اچھا کل آنا کل بتاؤں گا، اگلے دن تاریخ 23 تھی، سو 23 نمبر بھی نوٹ کر لیا گیا۔ سو، اگلے دن صبح صبح پھر جھونپڑی کا باہر غول جمع ہو گیا۔ باباجی ناشتہ کر کے پیٹ میں کچھ گُڑ گُڑ محسوس کر رہے تھے، لہٰذا فرمایا جو مجھے سیون اپ کی بوتل لا کر پلائے گا اسے نمبر بتاؤں گا۔ گروپ کے آدھے سے زائد لوگ سیون اپ کی بوتل لانے دوڑ گئے، جو نہیں گئے انہوں نے سمجھ لیا کہ اگلا نمبر 7 ہے۔ بابا جی نے سیون اپ کی بوتل پی، بوتل ٹھنڈی ٹھار تھی بوتل پی کر بابا جی کو ٹھنڈ لگی تو ایک زور دار قسم کی چھینک آ گئی، جواریوں نے سمجھ لیا کہ ہو نہ ہو اگلا نمبر 6 ہے۔ جیسے ہی نمبر پورے ہوئے جواریوں نے دوڑ لگا دی۔
صاحبو، یہی حال ہمارے ملک میں سیاسی ورکروں کا ہے، سیاستدان حسبِ معمول جہالت پر مبنی مہمل گفتگو فرما دیتے ہیں اور بھولے بھالے ورکرز منطق، علم، عقل اور شعور کا کریاکرم کرتے ہوئے کسی بھی لایعنی اور مہمل بات سے حکمت کے موتی تلاش کر کے اُچھل کود شروع کر دیتے ہیں۔ اس میں حیران کن بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں رسوائی اور بھَد اُڑنے کے باوجود ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوتے، بلکہ جواز در جواز پیش کرنے لگتے ہیں۔ اندازہ لگا لیں کہ قوم کا مستقبل کس طبقے کے ہاتھ میں ہے؟