• جنوری 20, 2025

موہے پیا ملن کی آس

شاید کہانی کوئی بھی نئی نہیں ہوتی، شاید ہر کہانی کسی نہ کسی طور کسی نہ کسی فرد کے ساتھ کسی نہ کسی زمانے میں پیش آ چکی ہوتی ہے۔ جزئیات، کردار اور اندازِ بیاں ہوتے ہیں جو ایک کہانی کو دوسری سے منفرد  یا ممتاز کرتے ہیں۔ زیرِ بیاں کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہےمگر اس کے باوجود اس میں  ایسا کچھ ہے جس نے قلم بند ہونے پرمجبور کر دیا۔

وہی پنجاب کا دیہاتی پس منظر، ہیرو غریب گھرانے کا نوجوان اور ولن گاوں کا چوہدری ۔۔ مگر ٹھہرئیے ۔۔ یوں نہیں، ذرا  تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ یہ کہانی فاطمہ بی بی اور اسکے نو عمر اکلوتے بیٹے گل شیر کی ہے۔ فاطمہ بی کے شوہر  عبدالحمید کا شادی کے تیسرے سال ہی انتقال ہو گیا تھا۔ ہل جوتتے ہوئے بیل نے پیٹ میں ایسا سینگھ مارا تھا کہ پیٹ میں سوراخ کر ڈالا،  شہر لے کر جانے کی نوبت ہی نہ آئی۔ گاوں والے شہر جانے کے انتظامات ہی کرتے رہ گئے اور لہو میں نہائے ہوئے عبدالحمید نے دم دے دئیے۔ فاطمہ بی کی دنیا اندھیر ہوگئی۔ ہمت والی تھی اور کوئی رشتےدار ایسا تھا نہیں جو سر پر ہاتھ رکھتا سو خود ہی ہمت کی، جو چند ایکڑ زمین عبدالحمید ترکے میں چھوڑ گیا تھا اسی میں بیل جوت لئیے۔ منہ اندھیرے ننھے گل شیر کو ڈھاک پر بٹھائے بیل ہانکتی کھیتوں کی طرف چل دیتی اور منہ اندھیرے واپس آتی۔ زرعی زمین کے ایک قطعے پر عبدالحمید نے کینو کا باغ لگا  رکھا تھا، اچھے وقتوں میں حکومت کینو کے باغات کی حوصلہ افزائی کیا کرتی تھی اور باغات کیلیئے وافر مقدار میں نہری پانی کی منظوری مل جایا کرتی تھی، عبدالحمید اور فاطمہ کا قطعہ اراٖضی بھی پانی کی وافر مقدار کی منظوری کا حامل تھا۔

شوہر کی وفات کے بعد حسبِ معمول گاوں کے چند مردوں نے آسان شکار سمجھ کر فاطمہ بی کے گھر کے آگے ہنکورے لگانے شروع کیئے تو فاطمہ بی سمجھ گیئں۔ دوسرے تیسرے ہی ایک کو جا لیا وہ کھری کھری سنائیں کہ اسے جان چھڑانا مشکل ہو گئی۔ رفتہ رفتہ فاطمہ بی کا مزاج سخت تر ہوتا گیا اور ایرے غیرے لوگ بھی فاطمہ بی سے کنی کترا کر گزرنے لگے۔ فاطمہ بی نے اپنا گل شیر یونہی پال کر جوان کر لیا اور کبھی کوئی فاطمہ بی کے کردار پر انگلی نہ اٹھا سکا۔ فاطمہ بی کے قطعہ اراضی کے برابر والی زمین گاوں کے نمبردار چوہدری مجید کی تھی۔ چوہدری مجید ایک بدفطرت اور کینہ پرور آدمی تھا، کبھی کبھار دیسی شراب سے بھی شغل کر لیا کرتا، اسکا مستقل شوق دھوتی باندھ کر مخصوص انداز میں ہاتھ پیچھے باندھ کر تشریف سے قمیص اٹھا کر ہاتھوں میں پکڑ کر چلنے کا تھا۔ جب وہ اپنے مخصوص انداز میں چلتا تو گاوں کی خواتین شرم سے سر جھکا لیتیں اور گلیوں میں نوجوان دانت نکال کر کھی کھی کرنے لگتے۔

گل شیر اٹھارہ برس کا ہوا تو قد کاٹھ باپ کی مانند لمبا نکلا تو کھلتا ہوا رنگ ماں پر جا پڑا۔ کاشت کاری کی مسلسل محنت کے باعث ورزشی جسم اوپر سے چڑھتی جوانی مگر آنکھ میں حیا، گاوں کی بڑی بوڑھیاں بھی نظر بھر کے دیکھتیں تو اپنی اپنی پوتیوں نواسیوں کا سوچنے لگتیں۔ یونہی کسی شادی میں گاوں ہی کی نجمہ سے آنکھ بھڑی تو دونوں دل ہار بیٹھے۔گل شیر بہانے بہانے سے نجمہ کی گلی کے چکر لگاتا یا نجمہ فاطمہ بی کے گھر لسی لینے آتی تو اور کسی کو خبر ہوتی یا نہ ہوتی مگر یہ منظر نمبردار چوہدری مجید کی نظر سے چھپا نہ رہ سکا۔

انہی دنوں مسلسل کئی سالوں کی خشک سالی اور کم بارشوں کی وجہ سے حکومت نے نئے باغات کیلیئے پانی منظور کرنے پر پابندی لگا دی اور پہلے سے منظور شدہ باغات کیلیئے پانی کی مقدار کم کی تو چوہدری مجید کا ماتھا ٹھنکا، چوہدری مجید فاطمہ بی کے پاس آیا اور اسے باغ والی زمین خریدنے کی آفر کی، فاطمہ بی کا پارہ ایسا چڑھا کہ چوہدری مجید کی حیثیت اور مرتبہ بھی بھول گئی، وہ کھری کھری سنائیں کہ چوہدری مجید کو بھاگتے ہی بنی۔ جاتے جاتے چوہدری مجید یہ ضرور کہہ گیا کہ اس دن کو کبھی نہ بھولوں گا اور یہ زمین اب تو خود مجھے بیچنےآئے گی۔

اس دن کے بعد چوہدری مجید نےغیرمحسوس طریقے سے نوعمر گل شیر اور نجمہ کی سرپرستی شروع کر دی۔ پہلے پہل آتے جاتے حال چال پوچھا کرتا تھا پھر تھوڑے بہت پیسے پکڑانے شروع کر دئیے۔ چوہدری کے ارادوں سے بےخبرایک دوسرے کے عشق میں گرفتار دونوں دلدل میں دھنستے ہی چلے گئے۔ چوہدری کی بیٹھک میں میل ملاقات سے شروع ہونے والی کہانی جب چوہدری کے نہر والی زمین والے ڈیرےپر ملاقاتوں تک پہنچی تو کسی نے نجمہ کے گھر والوں کو خبر کر دی۔بدنامی کے ڈر سے گھر والوں نے نجمہ کو مار پیٹ تو نہ کی مگر اسکے گھر سے نکلنے پر سخت پابندی عائد کر دی۔چند دن ملاقات نہ ہو پائی تو ایک دن گل شیر کو بے چین دیکھ کر چوہدری مجید نے اسے گل شیر کو بلایا، جب گل شیر چوہدری کے پاس آیا تو چوہدری نے اس سے دل کھول کر ہمدردی کی اور کہا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں۔ ساتھ ہی گل شیر کو پانچ ہزار روپئے دے کر کہا کہ یہ پیسے پکڑو اور آرام سے شہر جا کر نکاح کر لو، ان پیسوں سے اپنی بیوی کیلیئے فلاں دوکان سے کپڑے اور فلاں سنیارے سے زیور بھی لے لینا۔  وہیں رہنا محنت مزدوری کرنا اور بعد میں ماں کو بھی بلا لینا۔ باقی پیچھے میں سب سنبھال لوں گا۔ اس زمانے میں پانچ ہزار روپئے بہت رقم ہوتی تھی، عشق میں اندھے گل شیر نے پیسے پکڑے اور چاچے نمبردار کا  مرتے دم تک احسان مند ہو کر واپس آ کر منصوبہ بنانے لگا۔ چوہدری نے یہی پیغام کسی نہ کسی طرح نجمہ کو بھی پہنچوا دیا،

فاطمہ بی اس ساری صورتحال سے بے خبر تھی کہ سخت مزاجی کی وجہ سے کسی نے ڈرتے ڈرتے خبر کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ اگلی صبح پانچ بجے کی بس آئی تو گاوں کے بس سٹاپ سے شہر کے لیئے دو سواریاں سوار ہوئیں جن کے پاس روٹی کی پوٹلیوں کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ شہر پہنچ کر دونوں نے فیصلہ کیا کہ مولوی صاحب کے پاس جانے سے پہلے تھوڑا بہت زیور لے لینا چاہیئے آخر کار شادی کیا معاملہ تھا، اور چاچے نمبردار نے پیسے بھی تو دیئے تھے۔ سنیارے کی دوکان پر بیٹھے ابھی چند لمحے ہی ہوئے تھے کہ پولیس کی گاڑی آ گئی ان کے ساتھ نجمہ کے گھر والے بھی تھے اور چاچے نمبردار کا منشی کرم علی بھی۔ نجمہ کے گھر والوں نے لڑکی شناخت کی اور منشی کرم علی نے گل شیر کو شناخت کیا۔ لڑکی کے اغوا اور نمبردار چوہدری عبدالمجید کے گھر پانچ ہزار روپئے کی چوری کا مدعی چوہدری مجید تھا۔

گل شیر نے شروع مین بتھیرا شور مچایا کہ یہ پیسے تو چاچے نمبردار نے دئیے تھے مگر جب اےایس آئی صاحب نے کانوں پر ایک دھری تو گل شیر کی دوبارہ آواز نہ آئی۔ فاطمہ بی کو خبر اس وقت ہوئی جب اگلے دن ایس ایچ او  گل شیر کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر کے ریمانڈ بھی لے چکا تھا۔ بوڑھی عورت آخر کتنا واویلا کرتی، کسی نے مشورہ دیا کہ اب تھانے میں رونے پیٹنے کی بجائے وکیل کا بندوبست کرو۔ بوڑھی فاطمہ بی گاوں واپس آ گئی۔ گاوں کے چند لوگوں کو ترس آیا تو اگلی صبح ساتھ لے کر کچہری میں ایک وکیل سے ملوا دیا۔ اب فاطمہ بی روزانہ شہر آتی، کچہری میں وکیل کے دفتر کی دیوار کے ساتھ بیٹھی رہتی، وکیل کو آتے جاتے خیال آتا تو گاوں واپس جانے کا کہہ دیتا۔ چھے مہینے میں فاطمہ بی کی جمع پونجی حصولِ انصاف کی نظر ہو کر ڈھور ڈنگر بکنے تک کی نوبت آ گئی۔ڈیڑھ سال بعد گل شیر کو سیشن عدالت نے انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چوری اور اغوا کے جرم میں پندرہ برس قید کی سزا سنائی تو فاطمہ بی کے پاس فیصلہ سننے جان کے لیئے کرایہ بھی باقی نہ بچا تھا۔

کسی نے پھر راہ سجھائی کی لاہور میں ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرو وہاں ضرور انصاف ملےگا، فوجداری مقدمہ تھا اور وکیل بھی ہائی کورٹ کا، فیس کا سن کر ہی فاطمہ بی کے پاوں تلے سے زمین نکل گئی مگر بوڑھی عورت کیا کرتی اکلوتا بیٹا تھا ایک وہی تو تھا جسکے لیئے اب تک جی رہی تھی، بادلِ نخواستہ باغ والی زمین کا قطعہ بیچنے کا فیصلہ کیا۔زمین کا خریدار چوہدری مجید تھا۔

شاید چند لوگوں کے درد کا دارو ابدی نیند ہی ہوا کرتا ہے، شادی کے دو سال بعد شوہر کی موت کے بعد زندگی زمین سینچ کر بیٹا پالتے گزر گئی، بیٹا جیل جا پہنچا تو زمین بھی نہ رہی۔ ایک دن سوتے میں فاطمہ بی کا انتقال ہو گیا۔ غسل دینے والی نے بتایا کہ بوڑھی کا  پیٹ یوں چپکا ہوا تھا جیسے کئی دنوں سے کچھ کھایا نہ ہو، آنکھوں کے گرد بھی حلقے بن چکے تھے۔

نجمہ کے گھر والوں نے پہلے ہی ایک رشتہ دیکھ کر نجمہ کو بیاہ دیا تھا۔ لڑکا چیچہ وطنی میں سائیکلوں کی مرمت کی دوکان کرتا تھا۔جس دن گل شیر کو قید کی سزا سنائی گئی اس دن رات کو چوہدری مجید مردانے میں محفل لگائے بیٹھا تھا خوشامدئیے چوہدری کی منصوبہ بندی کی داد دینے  اور یار دوست قہقہقے لگانے میں مصروف تھے کہ اچانک زنان خانے سے چیخ و پکار کی آوازیں آئیں، چوہدری بھاگم بھاگ پہنچا تو دیکھا کہ اٹھارہ سال کی اکلوتی بیٹی شگفتہ جلتی لالٹین میں تیل بھرتے ہوئے کپڑوں کو آگ لگا بیٹھی ہے، آگ لگی تو گھبراہٹ میں باقی کا تیل بھی کپڑوں پر گرا بیٹھی، آگ الاو بن گئی اور  دیکھتے ہی دیکھتے آگ جسم کو پڑ گئی اور اس سے پہلے کہ کوئی بھجانے کی کوشش کرتا خوبرو شگفتہ جلے ہوئے گوشت اور ہڈیوں کا ڈھیر ہو گئی۔ چوہدری کی بیوی رشیدہ ذہنی توازن کھو بیٹھی اور گلیوں میں خاک اڑا اڑا کر سر میں ڈالتی اور بین کرتی۔ چوہدری مجید کو بیٹی کا ایسا غم لگا کہ بیوی کی حالت بھی بھول گیا اور سارا دن ڈیرے پر جا کر دیسی شراب پینے میں گزار دیتا۔ملازم شراب تیار کرتے اور چوہدری دھت ہو کر پڑا رہتا۔ یوں ہی ایک دن ایسے ہی کچی شراب پی کر راہیِ ملکِ عدم ہو گیا۔

وقت پر لگا کر اڑتا رہا، بہتر چال چلن کی بنا پر دو سال کی معافی کے بعد گل شیر تیرہ سال بعد جیل سے رہا ہو کر آیا تو گاوں بھر میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ دیکھیں گل شیر اب چوہدری مجید کے خاندان سے کیسے بدلہ لیتا ہے، گل شیر نے مگر بالکل دوسرا راستہ اختیار کیا۔ اسنے چوہدری مجید کے خاندان کو کبھی کچھ نہ کہا بس اسکے خاندان کا کوئی فرد نظر آتا تو کمر کے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو کر انہیں دیکھنے لگتا اور وہ سر جھکا کر نکل جاتے۔ آہستہ آہستہ گاوں والوں کے دل میں گل شیر نے گھر کر لیا اور چوہدری مجید کا خاندان گاوں بھر میں نفرت کا استعارہ بن گیا، گل شیر کو گاوں ہی کے ایک دوسرے خاندان نے جو کہ خود ملازمت پیشہ تھے انہوں نے گل شیر کو اپنی زرعی زمینوں کی دیکھ بھال کیلئیے ملازم رکھ لیا۔ شرائط مناسب تھیں اور گل شیر بھی نہایت دیانتداری، محنت اور لگن سے زمینوں پر کام کرتا۔ جلد ہی زمینوں کی حالت بہتر ہوئی تو جہاں اس خاندان کو فائدہ ملنا شروع ہوا تو ساتھ ہی ساتھ گل شیر کو بھی خوشحالی اور مالی مدد ملنا شروع ہو گئی۔

نجمہ جو کہ اب چار بیٹیوں کی ماں بن چکی تھی اور شوہر نے مزید بچوں کی پیدائش سے گریز کی خاطر خاندانی منصوبہ بندی والوں سے رجوع کر کے نجمہ کا آپریشن کروا دیا تھا۔ نجمہ کو ایک دن جب گل شیر کے جیل سے باہر آنے کی خبر ملی تو اپنے شوہر رمضان کے آگے ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گئی اور اسے سب سچ سچ بتا دیا۔ غربت سے تنگ رمضان جو کہ پہلے ہی چار بیٹیوں کی پیدائش سے پریشان تھا نجمہ کی کہانی سنی تو جھٹ سے شرط  رکھ دی کہ میں تمھیں تمھاری مرضی کے مطابق طلاق دے دیتا ہوں مگر تمھیں بیٹیاں ساتھ لے جانی ہونگی۔ ںجمہ نے اس شرط کو منظور کرلیا۔

ایک دن کسی نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، گل شیر نے دروازہ کھولا تو سامنے نجمہ کھڑی تھی چاروں بیٹیاں بھی ہمراہ تھیں۔ نجمہ نے گل شیر کو تمام قصہ سنایا تو گل شیر نے نہ صرف نجمہ کو بلکہ اس کی بیٹیوں کو بھی قبول کیا۔ ںجمہ اور گل شیر کی شادی ہو گئی۔ باوجود اس کے کہ نجمہ کے مزید اولاد نہیں ہو سکتی تھی، گل شیر نے نجمہ کہ بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں سمجھ کر پالا۔ گل شیر اب تک نجمہ کی تین بیٹیوں کو بیاہ چکا ہے۔ نجمہ کی بیٹیاں گل شیر کو چاچا کہہ کر پکارتی ہیں اور اسکا باپ جیسا ہی احترام کرتی ہیں، آج بھی نجمہ اور گل شیر ہنسی خوشی ایک سادہ مگرحقیقی محبت بھری زندگی گزار رہے ہیں۔

Read Previous

نمبر پلیٹ

Read Next

کوتاہی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Most Popular