لو جی سفر تے چلے او جاندے جاندے نیکی دا کم کیتی جاؤ اللہ تہاڈا آن دا تےجان دا مقصد پورا کرے. اے اک مسجد بنا ریا واں اللہ دے گھر دی تعمیر واسطے سیمنٹ بجری لئی جو حسب توفیق ہو سکے۔۔
لاہور سے فیصل آباد کے درمیان چلنے والی کوہستان کمپنی کی اے سی بس سروس میں بیٹھے چند لمحے ہوئے تھے کہ بس چلنے سے چند لمحات قبل یہ آواز کانوں میں پڑی تھی۔
میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک درمیانے قد کا منحنی سی داڑھی والا شخص سر پر پٹکا باندھے اور ہاتھ میں رسید بک پکڑے مسجد کیلئیے چندہ مانگنے کی غرض سے کھڑا تھا. اس قسم کی بس سروس میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی سفر کرتے تھے. جن میں زیادہ تر فیملیز کے علاوہ, لاہور شاہ عالمی مارکیٹ سے خریداری کے لئیے آنے والے تاجر حضرات, ہائیکورٹ پیشیاں بھگتنے والے سائل اور مؤکل, بڑے ہسپتالوں میں مریض کی عیادت کیلئیے آنے والے خواتین و حضرات کے علاوہ یونیورسٹی کالجز کے طلبا و طالبات شامل ہوتے۔
اللہ کے گھر کی تعمیر کیلئیے چندے کی اپیل کی آواز پر میں نے چند مسافروں میں ہلکی سی ہلچل محسوس کی۔
میں چونکہ پہلے خود طالب علم تھا بعد میں جاب بھی لاہور ہی میں مل گئی تو آئندہ ایک دو سالوں میں یہ ایک روٹین سی بن گئی کہ کوچ کے چلنے سے کچھ دیر پہلے آواز آتی۔۔
لو جی سفر تے چلے او جاندے جاندے نیکی دا کم کیتی جاؤ۔۔۔
اتنے عرصے میں مجھے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ اس آدمی کا نام حاجی اقبال ہے کیونکہ کنڈیکٹر حضرات اسی نام سے پکارتے. کوئی حاجی اقبال کہتا تو کوئی مولوی صاحب یا پھر کوئی سیدھا سیدھا اوئے مولوی کہہ کر مخاطب کرتا. مگر حاجی اقبال کسی کا برا نہ مناتا بلکہ اکثر کنڈیکٹر حضرات کو سر کہہ کر مخاطب کرتا. البتہ میں جس بس میں بھی بیٹھتا اس کا ڈرائیور حاجی اقبال کو یکسر نظر انداز کرتا بلکہ چلنے سے ٹھیک ایک منٹ پہلے کنڈیکٹر کو آواز دے کر کہتا اوئے اے مولوی نوں تھلے لاہ (مولوی کو نیچے اتارو)۔
ایک غیر محسوس طریقے سے حاجی اقبال میری توجہ کا مرکز بنتا جا رہا تھا. ایک دن ایک کنڈیکٹر سے یہ بھی سنا کہ حاجی اقبال کی دو بسوں میں شراکت داری بھی ہے. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حاجی اقبال نے اپنی رٹی رٹائی تقریر میں ایک جملے کا اضافہ کر لیا تھا ‘ ہن تے آندے جاندے مسافر وی جان دے نیں ‘ ( اب تو آتے جاتے مسافر بھی جانتے ہیں. چند ایک بار یوں بھی ہوا کہ کسی نہ پوچھ لیا کہ ‘یہ مسجد کہاں بن رہی ہے؟’ تو حاجی اقبال جواب دیتا کہ جناب جی ٹی روڑ کے اوپر انجنئیرنگ یونیورسٹی سے آگے شالامار سٹاپ پر اتر کر جس سے مرضی پوچھ لیں حاجی اقبال کی مسجد کہاں ہے وہ آپ کومسجد تک چھوڑ کر آئیں گے. سوال جواب کی نوعیت کبھی اس سے زیادہ آگے نہ بڑھ سکی۔
ایک دن اتفاقاً میرا سنگھ پورہ کے علاقے میں اپنے دوست نعیم کے ہاں جانا ہوا تو مجھے حاجی اقبال کا خیال آ گیا. شالامار کا علاقہ چونکہ سنگھ پورہ سے تقریباً متصل ہو چکا ہے اس لئیے میں نے ہوا میں تیر چلانے کا فیصلہ کرتے ہوئے حلیہ بتا کر نعیم سے پوچھا کہ کسی حاجی اقبال کو جانتے ہو؟ نعیم کچھ دیر ذہن پر زور دے کر بولا ‘حاجی اقبال پرنٹنگ پریس والے؟’ میں نے کہا یہ تو مجھے علم نہیں مگر وہ مسجد بنوا رہے ہیں. نعیم بولا اس میں ایسی کونسی مشکل بات ہے چلو عصر کا وقت ہے مسجد میں نماز ادا کر کے تمھیں ملوا دیتا ہوں شاید وہی ہوں۔
اہلِ علاقہ واقف ہوں گے کہ سنگھ پورہ کے علاقہ میں ایک دینی جماعت کا ایک بڑا مرکز ہے. آبادی میں ہونے کے باوجود مرکز اتنا بڑا ہے کہ وہاں بیک وقت ہزار کے قریب افراد قیام کر سکتے ہیں. مسجد میں ہر وقت جماعتوں کا آنا جانا اور اس سے منسلک سرگرمیاں چلتی رہتی ہیں. جماعتوں نے کبھی اہلِ علاقہ کے امن میں خلل نہیں ڈالا یہی وجہ ہے کہ علاقے میں دینی سرگرمیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
نماز کے بعد مجھے نعیم نے ہاتھ سے اشارہ کر کے نشاندہی کی, دیکھا تو حاجی اقبال دوسرے نمازی حضرات کے ساتھ مشورے میں مشغول تھے. حاجی صاحب نے ایک جماعت کی کارگزاری سنی اور مقیم جماعتوں کے قیام و طعام کے انتظامات کی مشاورت میں بھی حصہ لیا. میں نے موقع غنیمت جانا اور موقع پاتے ہی حاجی صاحب کو جا لیا, ابتدائی تعارف کے بعد اور ادھر ادھر کی باتوں سے فارغ ہوتے ہی استفسار کیا کہ حاجی صاحب آپکی مسجد کہاں تعمیر ہو رہی ہے جسکے لئے چندہ اکٹھا کرتے ہیں؟ حاجی صاحب نے جھٹ سے میرا ہاتھ پکڑا اور مسجد کا طویل دالان عبور کر کے وضو گاہ میں لے جا کر کھڑا کر دیا جہاں چند مزدور اور مستری وضو گاہ کی توسیع کر رہے تھے. میں نے عرض کیا کہ حاجی صاحب آپ تو کہتے ہیں کہ آپ شالامار کے علاقے میں ذاتی مسجد بنوا رہے ہیں اور دو کمروں کا لینٹر ڈلوانا ہے؟ حاجی صاحب چمک کر بولے ارے بھائی مسجد ذاتی کیسے ہو گئی؟ مسجد تو اللہ کی ہے ہم تو مسجد کے خادم ہیں, وہاں بن گئی یا یہاں بن گئی ایک ہی بات ہے. مجھے تقریبا انکا سارا طریقہ کار سمجھ آ گیا اور نہ جانے کیوں مجھے حاجی اقبال اس مسجد اور جماعت میں ایک گھُس بیٹھئیے سے لگے۔
چند دن بعد ہی مجھے نعیم کا فون آیا کہ میری طرف آ جاؤ حاجی اقبال کو پرنٹنگ کیلئیے کچھ میٹیریل دینے جانا ہے, اکٹھے چلتے ہیں. میں نعیم کی طرف پہنچ گیا. چند ہی منٹوں میں نعیم کی موٹر بائیک ایک درمیانے درجے کے مکان کے آگے پہنچ گئی جسکے باہر پرانے وقتوں کی چِپس لگی ہوئی تھی۔
کال بیل بجانے پر حاجی اقبال خود ہی باہر آ گئے اور نہایت تپاک سے ملے. بیٹھک کا دروازہ کھولا اور ہمیں اندر بٹھایا. میں ابھی محوِ حیرت ہی تھا کہ ایک چودہ پندرہ سال کا لڑکا جسکی ابھی نئی نئی مسیں بھیگ رہی تھیں سر پر سبز رنگ کا عمامہ باندھے سفید کرتا زیب تن کئیے ایک مخصوص فرقے کا حلیہ بنائے اور ہاتھ میں ایک ٹرے میں پیپسی کی دو بوتلیں لے کر داخل ہوا. حاجی اقبال فوراً بولے ادھر میز پر رکھ دے بیٹا اور سلام کر چاچا جی کو. پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بولے ‘یہ جی آپکا بھتیجا ہے محمد مزمل قادری’ یہ بات میرے لئیے جھٹکے سے کم نہ تھی. میں نے ہمت جمع کر کے کہا ‘مگر حاجی صاحب آپ تو جماعت کے ساتھ منسلک۔۔۔
حاجی اقبال ہاتھ نچا کر بولے ‘وہ جی بچوں کا جو ماما ہے نا وہ سرکار گیارہویں شریف والی سرکار کا ملنگ ہے. اسے بڑا شوق ہے اسکو سرکار دستگیر گیارہویں والی سرکار کا مرید بنانے کا جی. وہ تو جی کراچی سے پشاور تک بسوں میں سفر کرتا ہے. اللہ پاک نے بڑی برکت رکھی ہے اسکے رزق میں. اس بار مجھ سے کہہ رہا تھا عمرہ کرنے آپ کے ساتھ ہی جاؤں گا وہ تو پاکپتن شریف والی سرکار کا میلہ آ گیا۔
میں نے بات کاٹ کر موضوع بدلنے کی خاطر کہا ‘ماشااللہ حاجی صاحب بچہ کس جماعت میں پڑھتا ہے؟’ حاجی صاحب بولے “وہ جی آٹھویں میں ہے . . آپ بوتل پئیں ٹھنڈی ہے گرم نہ ہو جائے . . میں تو کہتا ہوں دفعہ کرو سکولوں میں کیا رکھا ہے ہم نے کوئی کلرک تھوڑی لگنا ہے. کرنا تو چندے کا ہی کام ہے نا, بس جی اللہ پاک نے بڑی برکت رکھی ہے. . رزق ہی رزق ہے. اللہ کی مخلوق کے دل میں بڑا درد ہے. بس جی یہ آٹھویں کا امتحان دے لے تو اسے لاہور قصور کے روٹ پر ڈالوں گا. سرکار بھُلے شاہ سے محبت کرنے والی بڑی دنیا ہے جی”۔
آج سوچتا ھوں تو نہ جانے کیوں مجھے اس دور کے حاجی صاحب میں آج کے دور کے اینکرز نظر آتے ہیں۔
نعیم نے پرنٹنگ کا مسودہ پکڑایا, ہم نے جلدی جلدی بوتلیں ختم کیں اور حاجی اقبال سے اجازت طلب کرکے رخصت ہو لئیے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بسلسلہ روزگار بیرون ملک آ گیا. پندرہ سال بعد واپس پاکستان جانا ہوا تو بذریعہ کوہستان اےسی کوچ جانے کا فیصلہ کیا. چند ہی منٹوں میں ایک مانوس سی آواز کانوں میں پڑی۔۔
لو جی سفر تے چلے او جاندے جاندے نیکی دا کم کیتی جاؤ۔۔۔
سر اٹھا کر دیکھا تو ایک تیس اکتیس سال کا جانے پہچانے نقوش والا نوجوان کھڑا چندے کیلئیے آواز لگا رہا تھا . . .اور میرے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ پھیل گئی۔