باپ سروں کا سایہ ہوتا ہے، “ایک سائبان کی طرح” چھوٹی داڑھی اور سر پر نماز کی جالی دار ٹوپی والے صاحب کہہ رہے تھے۔
آپ کا غم بہت بڑا ہے، اللہ رب العزت آپ کو صبر جمیل اور آپ کے والد کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے’ وہی صاحب بات کر رہے تھے۔
میں در اصل ایک دیرینہ عزیز فائق صاحب کے ہاں فاتحہ خوانی کیلئیے حاضر ہوا تھا، حال ہی میں انکے والد کا انتقال ہوا تھا تو ان کے ہاں تعزیت اور فاتحہ خوانی کے لیےحاضری لازم تھی۔
ہاتھ بھر کی سیاہ داڑھی، سر پہ نماز کی ٹوپی، درمیانہ قد اور شلوار قمیض میں ملبوس، وہی چہرے کے جانے پہچانے عام سے نقوش جسے دیکھتے ہی لگے کہ پہلے کہیں دیکھا ہے اور گندمی رنگت والے یہ صاحب پہلے سے موجود تھے جب میں فائق صاحب کے ہاں پہنچا۔
‘نیک اولاد پر فرض ہے کہ والدین کی مغفرت اور انکے درجات کی بلندی کیلیئے اللہ کے حضور دعا کرتی رہے، میرے بھائی آپ نے اس فریضہ کی ادائیگی میں غفلت نہیں کرنی۔ ’فاتحہ خوانی کے بعد وہ صاحب کہہ رہے تھے۔
فائق صاحب اور میں سر جھکائے انکی گفتگو خاموشی سے سن رہے تھے۔ میری شروع سے ہی عادت رہی ہے کہ اچھی اور مثبت گفتگو کو سر جھکا کر سنا کرتا ہوں، اس سے دل کو ایک توانائی سی ملتی ہے۔
کچھ دیر میں عصر کا وقت ہو گیا، فائق صاحب کے ڈرائینگ روم کے ایک کونے میں جائے نماز پڑی تھی۔ داڑھی والے صاحب خاموشی سے اٹھے اور نماز عصر ادا کی انکی دعا میں ایک خاص رقت اور التجا تھی اور اس کا ہم دونوں کے دلوں پر بہت مثبت اثر ہوا تھا۔ نماز سے فارغ ہو کر کھڑے ہوئے تو انکے چہرے پر چمکتے خشوع و خضوع نے مجھے بہت متاثر کیا، جانے کیوں انکا چہرہ جانا پہچانا سا لگتا تھا، چند لمحوں کے بعد انہوں نے فائق صاحب سے اجازت چاہی، میں نے بھی گرمجوشی اور احترام سے ہاتھ ملایا اور دروازے تک رخصت کیا۔
وہ صاحب روانہ ہو گئے تو فائق صاحب مجھ سے گویا ہوئے ‘آپ نے شاید انہیں پہچانا نہیں ہے۔۔۔یہ اسلم صاحب تھے’.
‘اسلم صاحب ۔۔۔یعنی وہ۔۔وہ والے اسلم صاحب؟’ میرا دایاں ہاتھ لاشعوری طور پر پیچھے کندھے کی جانب اٹھ گیا تھا جیسے ماضی یا کسی پرانی بات کا ذکر کرتے ہوئے ہو جایا کرتا ہے۔
فائق صاحب نے آنکھیں بند کر کے اثبات میں سر ہلایا۔
ذہن فلیش بیک میں چوبیس برس پیچھے پہنچ گیا جب مجھے پردیس میں آئے ابھی چند دن ہی گزرے تھے۔ فائق صاحب کے سسر پاکستان میں والد صاحب کے گہرے دوست تھے اس حوالے سے میں بھی انکو ہمیشہ انکل کہتا تھا۔ میں کینیڈا پہنچا تو انکل نے فائق صاحب کو میرے بارے میں ذکر کیا۔ فائق صاحب کا مجھے فون آیا اور حال احوال کے بعد انہوں نے کام کا سلسلہ پوچھا تو عرض کیا کہ ابھی تو کام کی تلاش بھی شروع نہیں کی۔ فائق صاحب نے ایک ہلکی پھلکی جاب کا ذکر کیا۔ یہ جاب فائق صاحب کی کسی جاننے والے کی ریفرنس سے تھی، انہیں ایک مقامی مال میں ایک انٹرنیٹ، کیبل ٹی وی اور لینڈ لائن فون سروسز مہیا کرنے کے سٹال پر ایک عدد سیلز مین کی ضرورت تھی۔ یہ بہت بنیادی سی جاب تھی۔ مجھے تمام عزیز اور رشتہ داروں نے مشورہ دیا کہ یہ جاب قبول کر لی جائے کہ معاوضے سے زیادہ مجھے پردیس کا ماحول، رہن سہن، بول چال، لوگوں کی پسند ناپسند اور طریقِ رندگی سمجھنے کی ضرورت تھی، اس حوالے سے نئے ملک میں زندگی شروع کرنے کے حوالے سے یہ جاب نہایت مناسب تھی۔ مگر اس میں ایک مسئلہ تھا۔۔۔اور وہ یہ تھا کہ میرا سیلز کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ میں کمپیوٹر سائینس کا آدمی تھا اور اسی کا کا میرا پاس کئی سال کا تجربہ تھا۔ جہاں تک یادداشت کام کر رہی ہے اس وقت تک در حقیقت میں نے زندگی میں صرف ایک دفعہ ہی کوئی شے فروخت ہرنے کی کوشش کی تھی اور وہ نیشنل کمپنی کا ایک سنگل سپیکر ٹیپ ریکارڈر تھا۔
اب لگے ہاتھوں آپ اس ٹیپ ریکارڈر کا قصہ بھی جان لیجئیے، بات کچھ یوں تھی کہ والد صاحب بہت زیادہ مذہبی تو نہیں تھے، مسجد جا کر یا گھر میں نماز ادا کر لیا کرتے تھے لیکن شرک کے بارے میں انکا رویہ بہت سخت مزاج تھا۔ شرکیہ گفتگو کو دو لمحے بھی برداشت کرنے کو تیار نہ ہوا کرتے۔ اس حوالے سے انہیں عام قوالیوں میں تصوف کے نام پر شرکیہ مضامین کے ذکر سے شدت سے چڑ تھی، لا محالہ ہمارے گھر میں ٹیپ ریکارڈر وغیرہ کا تصور بھی نہیں تھا۔ ایک دن والد صاحب بازار سے گزر رہے تھے کہ کسی کیسٹس کی دوکان پر ملتان کی ایک نابینا عالمِ دین قاری محمد حنیف ملتانی(خدا غریقِ رحمت کرے) کا حضرت عمر کے بارے میں بیان سننے کا ملا، قاری حنیف صاحب کو اللہ تعالیٰ کے غنا کی نعمت سے نوازا تھا وہ جب ترنم میں بات کرتے تو سننے والے کے دل پر اثر ہوتا۔ والد صاحب وہیں رک گئے، کیسٹ خریدی اور گھر آ کر ذکر کیا، ایک جونئیر ملازم کے گھر سے ٹیپ ریکارڈر منگوا کر پوری کیسٹ سنی اور بار بار سنی، سنتے اور حضرت عمر کی شان اور عدل و انصاف کے بارے سن کر جھوم جاتے۔ کچھ دن بعد جونئیر ملازم کا ٹیپ ریکارڈر واپس چلا گیا تو ہم چھوٹے بچوں نے جن کو بھی اس کیسٹ سے انسیت ہو گئی تھی ضد کی کہ ہمیں ٹیپ ریکارڈر چاہئیے ہمیں کیسٹ سننا ہے۔ والد صاحب نے سرکاری تنخواہ سے کچھ بچت کی اور یوں ایک دن ہمارے ہاں یہ نیشنل کمپنی کا سنگل کیسٹ، سنگل سپیکر ریڈیو کیسٹ ریکارڈر آ گیا۔ یہ کیسٹ ریکارڈر ہمارے ہاں سالہا سال چلتا رہا، نہ وہ کبھی خراب ہوا اور نہ کبھی ہم نے بدلنے کا سوچا۔
میں جب بڑا ہوا تو چودہ پندرہ سال کی عمر میں بدن میں کیمیائی تبدیلیوں کے جوالا مکھی اور پہلے پہلے عشق کے زیر اثر کمار سانو کے گیت دل پر ضرورت سے زائد اثر کرنے لگے، یہ وہ دور تھا جب ہر کیسٹ ہی ڈیجیٹل جھنکار سے آراستہ کی جاتی، تو سنگل سپیکر سے پیدا ہونے والی جھنکار میرے لئیے ناکافی تھی۔ میں نے ایک دن ایک لکڑی کا ڈبا بنایا اور ٹیپ ریکارڈر کھول کر سپیکر الگ کیا اسے ایک لمبی تار سے منسلک کر کےلکڑی کی ڈبے کے ساتھ پیچ کس کر جوڑ دیا، میری اس چھوٹی سے انجنیرنگ سے کمار سانو کے گیتوں کی جھنکار میں جان پیدا ہو گئی۔ والدہ محترمہ اس کاروائی سے بے خبر تھیں، ایک دن اچانک کمرے کی صفائی کے دوران ان کی نظر پڑ گئی تو وہ سمجھ گئیں کہ لڑکا ہاتھ سے نکلا ہی نکلا۔ اس سے پہلے کہ مجھ پر پہلے پہلے عشق اور کمار سانو کے گیتوں کا ضرورت سے زائد اثر ہو جائے انہوں نے حکم دیا کہ شام سے پہلے پہلے اس ٹیپ ریکارڈر کو اسکی اصلی حالت میں واپس جوڑ دیا جائے۔ حکم کی فوری تعمیل ہو گئی تو انہوں نے ہمسائے سے جگنو بھائی کو بلوا بھیجا، جگنو بھائی ہم سے عمر میں آٹھ دس سال بڑے تھے، وہ آئے تو والدہ نے کہا کہ اسے ساتھ لے جاؤ اور بازار میں کسی دوکان پر یہ ٹیپ ریکارڈر فروخت کر دو۔ جگنو بھائی نے مجھے اپنے سائیکل کے پیچھے بتھایا اور ایک دوکان پر لے گئے، دوکاندار نے ٹیپ ریکارڈر کو اچھی طرح دیکھا اور اسکے دام ساڑھے چار سو روپے لگائے۔ ہم راضی ہو گئے، دوکاندار اپنی صندوقچی کھول کر پیسے پکڑانے ہی لگا تھا کہ کسی خیال کے تحت اس نے پوچھ لیا کہ ‘اس میں کوئی خرابی تو نہیں ہے؟’ اس سے پہلے کہ جگنو بھائی کچھ کہتے، میرے منہ سے نکل گیا کہ کیسٹ پلییر کے اندر فلاں گراری کا او رِنگ ہر دو چار ہفتے بعد بدلنا پڑتا ہے ورنہ کیسٹ کا فیتہ ہیڈ کے ساتھ لپٹ جاتا ہے، مزید یہ کہ شارٹ ویو بینڈ ٹھیک سے نہیں چلتا اور سپیکر کی کوائل بدلنے کی ضرورت ہے۔ میں خاموش ہوا تو دیکھا جگنو بھائی مجھے ایک تند گھوری سے گھور رہے تھے، دوکاندار نے ٹیپ ریکارڈر کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے مجھے دیکھا اور کہا۔۔۔۔پینتالیس روپے لینے ہیں تو لے لو!
ہم نے ٹیپ ریکارڈر واپس پکڑا اور گھر واپس آ گئے، واپس آ کر جگنو بھائی نے امی کو ٹیپ ریکارڈر واپس پکڑاتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ۔۔۔’آنٹی آئیندہ کچھ فروخت کرنا ہو تو برائے مہربانی اسے ساتھ نہ بھیجئیے گا!’.
تو صاحبو، یہ تھا میرا کُل سیلز کا تجربہ۔۔
بہرحال، میں نے مال میں سٹال پر جانا شروع کر دیا، شروع شروع میں تو کافی دقت رہی، کچھ سمجھ نہیں آتا تھا لیکن آہستہ آہستہ کچھ دنوں میں آسانی ہونا شروع ہوگئی۔ میں دن بھر مال میں واک کرتے بابوں اور آتے جاتے نئی نسل کے جوڑوں کو نئے اور اس وقت کے تیز ترین انٹرنیٹ اور کیبل ٹی وی کے فوائد گنواتا، دو چار دن بعد میں نے روزانہ دو چار آرڈر بھی پکڑنا شروع کر دئیے۔ اسلم صاحب سے یہیں پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ اسلم صاحب فائق صاحب کے جاننے والے تھے اور ایک فیکٹری میں نوکری کے علاوہ پارٹ ٹائم یہی میرے والی سیلز کی جاب کرتے۔ فائق صاحب نے ہی اسلم صاحب کو مجھے گائیڈ کرنے اور مدد کرنے کیلئیے کہا تھا۔ مجھے پہلی ملاقات میں ہی اندازہ ہو گیا کہ اسلم صاحب چِٹے ان پڑھ تھے۔ لکھنا پڑھنا بالکل نہیں جانتے تھے اس کا اندازہ میں نے گاہکوں سے ان کا فارم ان سے ہی پُر کرواتے دیکھنے سے لگایا۔ فون میں نمبر محفوظ کرنا ہوتا تو مجھے تھما کر کہتے ‘اس میں بھر دو’.
میں پاکستان سے یونیورسٹی مکمل کر کے آیا تھا لیکن ان پڑھ ہونے کے باوجود اسلم صاحب کی سیلز کی صلاحیت مجھ سے ہزار درجے بہتر تھی۔ میں دن بھر میں بمشکل دو یا چار آرڈر پکڑنے میں کامیاب ہوتا جبکہ اسلم صاحب بمشکل آدھ گھنٹے کیلئیے آتے اور نہ جانے کیا گیدڑ سنگھی سنگھاتے کی آدھ گھنٹے میں آٹھ دس آرڈرز لے کر چلے جاتے۔ آرڈر کمپنی تک پہنچانے کا طریقہ یہ ہوتا کہ جب کچھ آرڈرز جمع ہو جاتے تو ایک پبلک فون بوتھ سے کمپنی کو کال کر کے تمام فارمز کا ڈیٹا انکے سروس سینٹر کو درج کروا دیا جاتا اور یوں اس سیلز کا کمیشن آپکو بطور چیک دو ہفتے بعد مل جاتا۔ اس کام میں ںھی اسلم صاحب میری مدد کر دیا کرتے ۔
دو ہفتے کے بعد جب چیک وصول کرنے کا وقت آیا تو میرے باس کا مجھے فون آیا، وہ حیرانی سے پوچھ رہا تھا کہ کیا میں نے پچھلے دو ہفتوں میں ایک بھی سیل نہیں کی؟ میں نے پندرہ دن کا ریکارڈ چیک کیا تو میرے پچاس سے اوپر کے آرڈرز تھے۔ میرا باس حیران تھا کہ کمپنی نے میرے لئیے کوئی رقم نہیں بھیجی تھی۔ میں نے بہرحال اپنے فارمز کی کاپیاں باس کو بھیج دیں، اس نے کمپنی کے اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں تحقیق کروائی تو پتہ چلا کہ میرا ہر آرڈر جو فون پر کمپنی کا بتایا گیا تھا اس پر اسلم صاحب کا ایمپلائی نمبر درج تھا۔ تو دراصل ہو یہ رہا تھا کہ شام کے وقت جب اسلم صاحب میری مدد کرنے آتے تو کمپنی کو فون پر اپنے آرڈرز کے ساتھ ساتھ میرے آرڈرز بھی اپنے کھاتے میں درج کروا کر چلتے بنتے۔ میں نے یہ جاب دو چار ہفتوں کے بعد چھوڑ دی۔ میں نے فائق صاحب سے کبھی شکایت نہیں کی، اسلم صاحب بھی نہ کبھی مجھے دوبارہ ملے اور نہ انہوں نے مجھے کبھی پیسے واپس کئیے۔ چوبیس پچیس سال کے عرصے بعد میں بھی یہ رقم بھول چکا تھا۔
فائق صاحب بتا رہے تھے کہ اسلم صاحب کا تو کاروبار اب بہت وسیع ہو چکا ہے، اپنے تین بچوں کی نہ صرف دھوم دھوم سے شادیاں کر چکے تھے بلکہ ہر ںچے کو شادی کے تحفے میں ایک ایک بڑا گھر بھی دیا تھا۔ آٹھ دس مکان کرائے پر دے رکھے تھے اور ایک عدد کمپنی کے مالک تھے جو گھروں میں ہیٹنگ اور کولنگ کا کام کرتی تھی۔ میرے ذہن میں آندھیاں سی چل رہی تھیں۔ پچیس سال کے بعد میں ایک یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ہو کر بھی ایک بڑی آئی ٹی کمپنی میں مینیجر کی جاب کر رہا تھا، اچھا گھر, اچھی جاب تھی لیکن بچت نہ ہونے کے برابر تھی۔
آپ نے فلاں فلاں کمپنی کا نام سنا ہے؟ فائق صاحب نے ایک کمپنی کا نام لیا۔ ‘جی وہی جس کی وجہ سے صوبائی حکومت کو قانون سازی کرنا پڑی ہے؟’ میں نے دریافت کیا۔
‘جی۔۔وہی۔۔وہ اپنے اسلم صاحب کی ہی کمپنی ہے’ فائق صاحب نے بمب پھوڑا ۔۔
تو ہو یہ رہا تھا کہ اسلم صاحب کی کمپنی ایسے عمر رسیدہ لوگوں کے گھروں کا انتخاب کرتی جو اولڈ ہوم جانے کی بجائے اپنے گھر میں ہی رہنے کو ترجیح دیتے۔ اسلم صاحب کی کمپنی کے ہرکارے ان کے دروازوں پر جاتے اور خود کو گورنمنٹ ایجنسی کا اہلکار بتاتے اور ان سے کہتے کہ آپ کی حفاظت کیلئیے حکومت نے ہمیں آپ کے گھر کی کولنگ اور ہیٹنگ سسٹم کے چیک اپ کیلئیے ںھیجا ہے۔ یہ عمر رسیدہ گورے جلد ان کے چکر میں آ جاتے، اسلم صاحب کی کمپنی انہیں نہ صرف ہائی انٹرسٹ ریٹ پر انکو ہیٹنگ یا کولنگ سسٹم فروخت کرتی بلکہ کاغذات میں بہت باریک لکھی ہوئی تحریر جس میں لکھا ہوتا کہ یہ کسٹمر اس وقت تک گھر نہیں فروخت کر سکے گا جب تک ہزاروں ڈالرز میں ایک بھاری رقم اسلم صاحب کی کمپنی کو ادا نہ کی جائے۔ اس طرح کے بے شمار کیسز سامنے آ چکے تھے، عدالتیں کچھ کرنے سے قاصر تھیں کیونکہ ان کسٹمرز نے کاغذات پر دستخط کر رکھے ہوتے تھے۔ بالآخر صوبائی حکومت کو اس معاملے پر نیا قانون بنا کر نافذ کرنا پڑا تھا۔ بہت سے ضعیف اور کم انکم والے افراد اسلم صاحب اور ان جیسی کئی اور کمپنیوں کے شکار بن چکے تھے۔
میں نے فائق صاحب سے اجازت چاہی، معانقہ کیا اور باہر کی جانب روانہ ہو گیا، میں چلتا ہوا جا رہا تھا لیکن ذہن میں ایک طوفان بپا تھا، میں نے اس ملک آ کر بہت سخت محنت کی تھی رات کی فل ٹائم جاب کے ساتھ میں کئی سال دن کو فل ٹائم کالج جاتا رہا تھا۔ سونے اور کھانے پینے کا بہت کم وقت ملتا۔ میں نے اس نئے ملک میں سیٹ ہونے کیلئے خود کو بہت رگڑا تھا۔ اعلیٰ تعلیم، سخت محنت، نیک نیتی اور تجربے کی بناء پر آج مجھے وہاں ہونا چاہئیے تھا جہاں مالی طور پر اسلم صاحب تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ذہن کے دو حصے ہوتے ہیں، دایاں حصہ تخلیقی، نرمی ہمدردی، آرٹ اور جذبات سے متعلق صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے، جبکہ بایاں حصہ تجزیہ، تحقیق، منطقی اور تنقیدی صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ میرے ذہن کے دونوں حصے اس وقت آپس میں گتھم گتھا تھے۔
ذہن کا دایاں حصہ شکایت کر رہا تھا کہ تمام تر محنت، تعلم، کردار کی پختگی اور تجربے کے باوجود رب نے رزق میں وسعت ایک ان پڑھ، کم تر کردار اور قابلِ نفرت ترجیحات کے مالک شخص کیلئے مختص کی۔ ذہن کا بایاں حصہ کہہ رہا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں، ذاتی کاروباری صلاحیت کے ہونے یا نہ ہونے کو رب کی رزق کی تقسیم سے جوڑنا مناسبب عمل نہیں، ذہن کا بایاں حصہ کہہ رہا تھا کہ تم میں کاروباری صلاحیت کب تھی جس کی بنیاد پر کاروبار کر سکتے؟ تعلیم کے معاملے میں بھی تمھاری ترجیح ایسی ہی تھی کہ تم عمر بھر ایک اچھی ملازمت تو کر سکتے تھے لیکن کاروبار کے اسرار و رموز نہیں جان سکتے تھے۔ دائیں نے پھر دلیل دی کہ لیکن میں نے کیا کم محنت کی تھی؟ ذہن کا بایاں حصہ پھر سامنے آیا اور گویا یوا۔۔تو کیا تمھاری محنت کی صلے میں تمھارے پاس ایک عمدہ نوکری نہیں ہے؟ یہ کیوں بھول جاتے ہو کہ نوکری میں ایک حد تک ہی آگے جایا جا سکتا ہے لیکن کاروبار میں بے حد وسعت کے
مواقعے ہوتے ہیں۔ ذہن کا دایاں حصہ پھر بولا۔۔لیکن توفیق اور صلاحیت کی ودیعت تو رب کے ہاتھ میں ہے نا۔۔۔اس سے پہلے بایاں حصہ کچھ کہتا۔۔۔دل سے آواز آئی، او دیوانے۔۔اودھیاں او جانے۔۔امجد کہہ گئے
~ جو ملا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
چلتے چلتے کار تک پہنچ گیا تھا۔ دروازہ کھول کر اندر بیٹھا، کار سٹارٹ کی تو کار کا سٹیریو بھی آن ہو گیا، نصرت فتح علی خان پوری آب و تاب کے ساتھ گا رہے تھے ۔۔
تم ایک گورکھ دھندا ہو۔۔
ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو
تم ایک گورکھ دھندا ہو۔۔