غالباً 1996 کے موسمِ گرما کا ذکر ہے اور ہم ابھی علمِ دنیا کے ہی طالب ہوا کرتے تھے، کہ انہی دنوں ہدایتکار سید نور کی سپر ہٹ فلم ‘گھونگھٹ’ ریلیز ہوئی۔ لاہور چئیرنگ کراس پر واقع الفلاح سینما میں یہ فلم بہت رش لے رہی تھی اور سینما انتظامیہ کو اضافی شوز چلانے پڑ رہے تھے۔ ایک دن سنیچر کی شام کو ہم بھی ایک دوست کے ہمراہ فلم دیکھنے کا پروگرام بنا کر پہنچ گئے۔ لمبی قطار میں لگ کر ٹکٹ خریدی اور فلم دیکھنے ہال میں پہنچ گئے۔ فلم چلتی رہی اور ہم حسب ِ عادت فلم کے تکنیکی پہلؤوں پر غور کرتے رہے۔ ہمیں کہانی اور تکنیکی اعتبار سے یہ ایک واجبی سے فلم لگی مگر روبن گھوش کے میوزک نے فلم میں جان ڈال دی تھی۔ اس فلم میں ہدایتکار سید نور نے ایک واردات یہ کی تھی کہ ایک بھارتی گانے کا چربہ بنا کر ڈال دیا تھا جو کہ شاید روبن گھوش کی بجائے کسی اور موسیقار نے تیار کر کے دیا تھا۔ انٹرول کے بعد یہی چربہ گانا جسکے بول شاید ‘جوانی بڑی مستانی ہے، میری بات نہ مانے کوئی’ لگایا گیا۔ اداکارہ صائمہ نے گانے کے بولوں کی طرح رقص بھی کچھ اس ہیجان انگیز انداز میں کیا کہ اسی سالہ بزرگوار کا بھی فشارخون تیز ہو جائے۔ حسبِ توقع اس گانے نے چند لاہوری منچلوں کے جذبات برانگیختہ کر ڈالے اور انہوں نے گانے کے اختتام پر اپنی سیٹوں پر کھڑے ہو کر گانا دوبارہ چلانے کیلئیے شور مچانا شروع کر دیا۔
ان اٹھارہ سے بیس سالہ نوجوانوں نے سینما ہال میں ہلڑبازی کیلئیے عجب طریقہ اختیار کیا، انہوں نے اپنی قمیصیں اور بنیانیں وغیرہ اتار کر لہرانا شروع کر دیں، ان میں سے ایک نوجوان گلا پھاڑ نعرہ لگاتا ‘لالا لی لی لُو لا’ اور باقی نوجوان بیک وقت جواب دیتے ‘ہُو ہا ہُو ہا’ یہ نوجوان انہی نعروں کی بار بار تکرار کرتے پروجیکٹر کے آگے فحش اشارے کرتے اور کبھی بنیانیں لہرانے لگتے۔ سینما انتظامیہ نے بتایا کہ گانا دوبارہ چلانا ممکن نہیں کیونکہ اس شو کے بعد ایک اور شو بھی چلانا ہے جس کے لیٹ ہونے کا اندیشہ ہے۔ مگر نوجوانوں کا احتجاج اور طرز عمل شدت اختیار کرتا رہا۔ اس دوران باقی کے فلم بین یا تو نوجوانوں کے طرز ِ عمل پر کڑھتے رہے یا پھر خاموشی سے صورتحال کا جائزہ لیتے رہے۔ میں نے غور کیا تو ہال میں موجود حاضرین کو واضح طور پر تین طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا تھا۔
پہلا وہ طبقہ جنہیں جو پردہء سکرین پر دکھایا گیا اس سے شدید متاثر ہو کر جذبات بھڑکا بیٹھے اور باقی عوام کے امن و سکون کو غارت کرتے ہوئے ہلڑبازی کرنے لگے، سو یہ سوچ سمجھ اور شعور سے عاری ہلڑباز طبقہ تھا، جو اپنی تفنن طبع کیلئیے کسی بھی تحریک کا ایندھن بننے کیلئیے تیار تھا۔
دوسرا طبقہ وہ تھا جو فلم کو تو انجوائے کر رہا تھا مگر نئی صورتحال کو سمجھنے سے یکسر قاصر تھا مگریہ سمجھ رہا تھا کہ جو بھی ہوگا شاید اس میں انکے لئیے کچھ مزید لطف اندوز ہونے کا موقع نکل آئے، یہ موقع پرست طبقہ تھا صورتحال کوئی بھی ہو یہ طبقہ ہمیشہ کی طرح ہجوم کا حصہ بن کر اپنے نوچنے کے لیئے ہڈیاں تلاش کر لیتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کا یہ طبقہ سب سے گھٹیا طبقہ ہوا کرتا ہے ۔
تیسرا طبقہ وہ تھا جو نہ صرف اس گانے کی چربہ سازی سے بھی واقف تھا بلکہ فلم کے تکنیکی پہلوؤں، فلمساز کے رجحان اور ہدایتکار کی فلم میں کمزوریوں کو بھی سمجھ رہا تھا۔ یہ طبقہ تعداد میں کم تھا مگر جو کچھ سکرین پر دکھایا جا رہا تھا اسے اپنے حواس اور جذبات پر غالب ہونے دینے سے عاری تھا اور اب اس نئی صورتحال سے شدید بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے ‘اوئے کاکا بیٹھ جاؤ’ اور ‘اوئے کاکا جان دیو یار’ کہہ کر سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا، یہ طبقہ ہمیشہ اقلیت میں ہوا کرتا ہے اور سب سے زیادہ ذہنی دباو اور کڑھن کا شکار یہی طبقہ ہوا کرتا ہے۔
بہرحال اس شدید احتجاج کے دوران سینما انتظامیہ نے کسی وقت اپنے ساڑھے چھ چھ فٹ قد کے ڈشکرے ہال میں بھیجے، یہ لمبے تڑنگے افراد ان نوجوانوں کے عین سروں پر پہنچ گئے تو انتظامیہ نے ایک دم سے لائیٹس آن کر دیں۔ اس کے بعد ہال میں صرف زور دار طمانچوں کی آوازیں اور ہائے او مر گیا کی آوازیں سنائی دیں۔ چند نوجوانوں نے گیلری سے نیچے ہال میں چھلانگیں لگا دیں، جبکہ باقیوں کو وہ کالروں سے پکڑ کر لے گئے۔ یہ تمام آپریشن تین منٹ سے بھی کم وقت میں مکمل ہو گیا۔ حاضرین ِ محفل نے باقی فلم نہایت سکون اور توجہ سے دیکھی۔ اگلے دن شام کے اخبار میں خبر تھی کہ گھونگھٹ فلم کی شاندار نمایش جاری، الفلاح سینما میں منچلوں کا رقص، عوام کا فلم کے گانے بار بار دیکھانے پر اصرار۔
میں آج ملکی صورتحال پر غور کرتا ہوں تو اس فلم کے دوران پیدا ہونے والی صورتحال سے جدا نہیں کر پاتا۔ عوام کو ستر سال سے جاری فلم کا ایک مخصوص حصہ دکھلا کر برانگیختہ کر دیا جاتا ہے اور یوں عوام کا ایک حصہ اس ٹوٹے کو لیکر ہلڑبازی شروع کر دیتا ہے۔ جب انتظامیہ کا مقصد پورا ہو جاتا ہے تو ایک مختصر آپریشن کر کے ان تمام کا مکو ٹھپ دیا جاتا ہے۔ اس دوران ایک بڑا طبقہ اپنے حصے میں آنے والی ہڈیاں نوچنے کی امیدیں لگا کر بیٹھ جاتا ہے، جبکہ ایک تیسرا مگر چھوٹا طبقہ پہلے دونوں طبقوں کو اس فلم سے متاثر ہونے سے بچنے کی یاد دہانی کرواتا رہتا ہے، اور یوں مسلسل مطعون ٹھہرتا ہے۔
تینوں طبقے چاہے ایک دوسرے پر کڑھتے رہیں یا آپس میں دست و گریبان ہوں، بہرحال ایک کے بعد دوسری فلم کی کامیاب نمائش جاری رہتی ہے۔