یہ سن دو ہزار کی دہائی کے وسط میں ان دنوں کی بات ہے جب پاکستانی اخبارات انٹرنیٹ پر نئی نئی منتقل ہونا شروع ہوئی تھیں۔ اس عمل سے ہم جیسے سمندر پار پاکستانیوں کیلئیے بہت سہولت ہو گئی تھی، اخبار پڑھنے کا چسکا چونکہ گھر سے ہی ملا تھا تو وطنِ عزیز سے باہر آ کر شدید تشنگی محسوس ہوا کرتی، لہٰذا ہم ٹورںٹو کے پاکستانی گروسری سٹورز پر جا کر ہفتہ وار اردو اخبارات لے آتے جو کہ پچانوے فیصد تک اشتہارات سے بھرے ہوتے۔ مگر ہم پھر بھی ایک ایک اشتہار کئی کئی بار پڑھ ڈالتے۔
انہی دنوں ایک بڑے قومی اردو صحافتی ادارے نے اپنے اخبار کا ڈیجیٹل ورژن جاری کیا۔ یہ انکے روز مرہ اخبار کا حقیقی عکس ہوتا اور آپ نہ صرف اس پورے اخبار کے صفحات پلٹ سکتے تھے بلکہ کسی خبر پر کلک کرتے تو وہ زوم ان ہو کر پڑھنے کے قابل بھی ہو جاتی۔ میں نے عادت سے مجبور ہو کر ایسے ہی کمپیوٹر آن کر کے انٹرنیٹ سے منسلک کیا اور اخبار پڑھنا شروع کیا۔ پچھلے صفحے تک پہنچا تو ایک تصویر جانی پہچانی سی لگی۔ تصویر ایک باوردی جوان کی تھی، ملحقہ خبر پر نظر پڑی تو ذہن کو شدید جھٹکا لگا اور یوں ذہن وقت کی لہروں پر سفر کرتا پانچ برس پیچھے چلا گیا جب میں اسلام آباد میں ہوتا تھا۔
اسلام آباد میں اس وقت میں ایک نیم سرکاری ادارے میں بطور سوفٹ وئیر انجنئیر کام کیا کرتا تھا۔چونکہ اسلام آباد میں اکیلا رہتا تھا تو سیکٹر جی ایٹ فور میں ایک فلیٹ میں ایک کمرہ کرائے پر لے رکھا تھا، مجھے ہر دو یا تین یفتے بعد گھر واپس جانے کا موقعہ ملتا تھا اسکے لئیے میری پسندیدہ سروس ان دنوں کی نیو خان پیتھر سروس ہوا کرتی تھی۔ یہ سروس بڑی کوچز کی بجائے نیو خان کمپنی کی طرف سے چلائی گئی نئی مرسیڈیز گاڑیوں جو کہ دس یا بارہ سیٹر چھوٹی مگر نسبتاً تیز رفتار اور صاف ستھری وینوں پر مشتمل تھی۔ یہ غالباً بقرعید یا کسی ایسے ہی تہوار کے دن تھے اور تین چار اکٹھی چھٹیاں مل جانے کی وجہ سے بیرون شہر سے آئے میرے جیسے پردیسی اپنے اپنے گھر پیاروں کے پاس جانے کیلئیے بھاگم دوڑ میں مصروف تھے۔ آفس سے فارغ ہو کر فلیٹ پر آ کر بیگ اٹھایا جو کہ میں نے ایک رات پہلے ہی تیار کر رکھا تھا، ٹیکسی پکڑی اور بیس منٹ میں نیو خان پینتھر سروس کے اڈے پر پہنچ گیا۔ شام کا وقت تھا اور ٹکٹ والی کھڑکی پر قطار دیکھ کر میرے معدے میں گھونسا سا لگا۔ مجھے لائلپور جانا تھا دل میں یہی دعا تھی کہ باقی مسافر لاہور یا دیگر شہروں کو جانے والے نکل آئیں تو مجھے سیٹ مل جائے۔ دیکھتے دیکھتے پہلے دو اور پھر تیسری گاڑی بھی لوڈ ہوئی اور مسافروں کو لے کر نکل گئی۔ ایسے میں ٹکٹ آفس سے آواز بلند ہوئی کہ لائلپور جانے کیلئیے یہ آخری گاڑی ہے اور انتظامیہ کے پاس لائلپور بھیجنے کیلئیے فی الوقت مزید گاڑیاں دستیاب نہیں ہیں۔
مجھے ہر صورت لائلپور پہنچنا تھا، لہٰذا یہ گاڑی میرے سفر کیلئیے ناگزیر تھی۔ بارہ سیٹوں کی وین میں دیکھتے ہی دیکھتے نو سیٹیں بھر گئیں۔ میں لائن میں تھا اور ابھی تین سیٹیں باقی تھیں کہ میری باری آ گئی، میری جان میں جان آئی۔ میں نے ٹکٹ آفس کی کھڑکی میں ٹکٹ کے پیسے ادا کرنے کیلئیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ کسی نے میرے داہنی جانب سے مجھے کہنی سے دھکیل کر پرے کر دیا اور نہایت تحکمانہ اور بظاہر مصنوعی رعب سے ٹکٹ افسر سے مخاطب ہو کر پیسے پکڑاتے ہوئےنہایت رعونت سےکہا۔۔”لیفٹینینٹ خرم کیلئیے تین سیٹوں کا انتظام کریں !!!۔”
میں نے گردن گھما کر دیکھا تو یہ ایک تقریباً میری ہی عمر کا دبلا پتلا باوردی نوجوان تھا جو غالباً ایبٹ آباد اکیڈمی سے واپس آیا تھا۔ لیفیٹینینٹ خرم کے ساتھ اسی کے ہم عمر دیگر دو ساتھی بھی ہمراہ تھے جو اس وقت مجھے پر نظریں گاڑے ہوئے تھے جیسے میرے کسی احتجاج کرنے پر مجھے قابو کرنے کیلئیے تیار ہوں۔ میرے لئیے یہ سفر ناگزیر تھا اور یہ آخری دستیاب گاڑی تھی، کوئی اور موقعہ ہوتا تو شاید میں پیچھے ہٹ جاتا لیکن اس توہین آمیزی نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی۔ میں نے لیفٹینینٹ خرم سے مخاطب ہو کر کہا۔ ‘بھائی صاحب لائن پیچھے سے شروع ہوتی ہے۔ میں آدھے گھنٹے سے لائن میں ہوں آپ براہِ مہربانی پیچھے جائیے” میرے لہجے میں شدید احتجاج اور غصہ تھا۔
لیفٹینینٹ خرم نے پہلے سے بھی سے زیادہ تحکمانہ اور مصنوعی پوٹھوہاری اردو لہجے میں مجھے جواب دیا ‘ اوئے! تجھے سمجھ نہیں آئی؟ چل پیچھے ہو کر کھڑا ہو جا”
اسی اثناء میں ٹکٹ آفیسر نے تین ٹکٹ کاٹے جو میرے سمیت میرے بعد والے ایک نئے شادی شدہ جوڑے کا حق تھے لیکن اس نے تینوں ٹکٹ لیفٹینینٹ خرم کو تھما دئیے۔ شاید ان اڈے والوں کیلئیے یہ معمول کی بات تھی۔
لیفٹینینٹ خرم نے فاتحانہ انداز میں مجھے گردن گھما کر دیکھا اور متکبرانہ انداز میں مجھے نظر انداز کرتے ہوئے وین کی طرف چل دئیے۔ مجھے اس صریح ناانصافی، بدتمیزی اور استحصال پر بہت شدید غصہ آیا۔ اس نوجوان نے نہ صرف میری حق تلفی کی بلکہ میری توہین بھی کی تھی، بے شمار دفعہ ایسا ہوا کہ کسی کے درخواست کرنے پر میں نے اپنی سیٹ انکو دے دی انسان رواداری اور ایثار کوشی میں ایک دوسرے کیلئیے اتنا تو کر ہی سکتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ مختلف تھا، یہاں سیدھی سیدھی دھونس، رعونت اور استحصال کیا گیا تھا۔ شدید غصے کے عالم میں میں بات نہیں کر پا رہا تھا اس سے بھی زیادہ فکر تھی کہ شاید اب کوئی عام بس سروس لینی پڑے گی جو کہ میں نے پنڈی سے لائلپور کیلئیے پہلے کبھی نہیں استعمال کی تھی۔ مجھے بس سے سفر کرنے میں کوئی دقت نہیں تھی بس یہ تھا کہ اس سفر کے دورانئیے اور نامعلوم مشکلات کا خوف ذہن میں تھا۔ وین نکل چکی تھی، ذہن پر شدید پریشانی طاری تھی، میں نئے شادی شدہ جوڑے کی جانب متوجہ ہوا کہ اس حق تلفی کے میرے ساتھ ساتھ وہ بھی متاثرہ فریق تھے۔ ان سے پوچھا کہ آپکا کیا پروگرام ہے؟ دونوں میاں بیوی کے چہرے مہرے اور اعتماد کی کمی سے ظاہر ہوتا تھا کہ متوسط طبقے کے نچلے درجے سے تعلق رکھتے ہیں اور غالباً شادی کے بعد نہ صرف پہلی بار اکٹھے سفر کر رہے تھے بلکہ خطہ پوٹھوہار میں بھی پہلی بار آئے تھے۔ دونوں خاموش اور کبھی ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور کبھی مجھے۔ آخر شوہر جو کہ مجھے سے عمر میں شاید پانچ سات برس بڑا ہوگا چہرے کی گندمی رنگت اور کریم کلر کے شلوار قمیص میں ملبوس تھے سہمے سہمے اتنا کہا “وہ جی۔۔آپکو اس علاقے کا زیادہ پتہ ہے جی۔۔جیسے آپ کہیں” انہوں نے مدعا واپس مجھ پر ڈال دیا۔
میں نے ادھر ادھر دوستوں کو فون کرنے شروع کئیے کہ شاید کوئی بہتر مشورہ مل جائے، ہمیں ٹکٹ آفس سے کہا گیا کہ ایک صورت یہ ہے کہ کوئی گاڑی آ جائے اور اسکا ڈرائیور واپس جانے پر رضامند ہو جائے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے لیکن اسکے چانس بہت کم ہیں۔
اسی اثناء میں اڈے میں ایک گاڑی داخل ہوئی یہ گاڑی لائلپور سے واپس آئی تھی، ڈرائیور نے گاڑی پارک کی سواریاں اترنا شروع ہوئیں تو اس ڈرائیور نے بہ آوازِ بلند ٹکٹ آفس کو مخاطب ہو کر کہا کہ اس نے لائلپور واپس جانا ہے، اسے کوئی ضروری کام ہے لہٰذا اسکی گاڑی کا نمبر پہلے لگا دیا جائے۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ اسکے علاوہ اور کوئی گاڑی نہیں جا رہی ہے۔ بہرحال اس دفعہ ٹکٹ آفیسر نے ہم تینوں مسافروں کو پہلے ٹکٹ جاری کئیے کچھ دیر میں پانچ چھ اور مسافر بھی آ گئے اور یوں ڈیڑھ دو گھنٹے ضائع ہونے کے بعد ہم لائلپور کیلئیے محوِ سفر ہو گئے۔ لائلپور پہنچتے پہنچتے ہمیں رات کے بارہ بج گئے تھے، مگر مجھے لائلپور سے آگے جانا تھا، لیکن میری منزل مقصود کی طرف جانے والی گاڑیاں شام سات آٹھ بجے کے بعد بند ہو جاتی تھیں اور آخری ٹرین بھی رات نو بجے نکل جاتی تھی۔ لامحالہ مجھے رکشہ لے کر بسوں کے اڈے جانا پڑا۔
ان دنوں صادق آباد سے فیصل آباد کے درمیان چلنے والی منٹھار بس سروس کا اپنی تیز رفتاری اور بروقت آمد کے باعث بہت شہرہ ہوا کرتا تھا، مشہور عام تھا کہ بی بی سی کے سروے میں منٹھار بس سروس دنیا کی سب سے تیز بس سروس قرار پائی ہے (دعوے کی حقیقت نامعلوم)۔ یہ نان اے سی بس سروس دیگر کمپنیوں جیسے کوہستان، نذیر عنایت اللہ، شبیر برادرز، نیو خان اور بہت سی دوسری بس سروسز کے درمیان ایک ممتاز درجے کی حامل تھی، اسکے انجن اور مفلر کو ایک خاص طریقے سے ٹیون کیا جاتا تھا جس سے بس میں بیٹھے مسافروں کو تو اتنا محسوس نہیں ہوتا تھا لیکن جہاں جہاں سے بس گزرتی فضا میں ایک خاص گونج ساتھ ساتھ میں تیرتی جاتی۔ پانچ دس کلومیٹر دور دیہاتی علاقوں میں بھی علم ہو جاتا کہ یہ منٹھار ٹائم گیا ہے۔ انکے ڈرائیوروں کی بے خوفی اور بے احتیاطی کا یہ عالم تھا کہ رات کو سفر کرنے والے اکثر کار ڈرائیورز حضرات اپنی کار کو احتیاطاً آہستہ اور ایک جانب چلاتےاور انتظار کرتے رہتے کہ منٹھار ٹائم گزر جائے تو نارمل ڈرائیو کریں گے۔ انکے ڈرائیوروں کو دیگر بس ڈرائیوروں کے درمیان وہی مقام حاصل تھا جو کہ بوئینگ اور ائیربس کے مسافر جہاز چلانے والے پائلٹس کے درمیان فائیٹر پائلٹسں کو حاصل ہوتا ہے، بے شمار دفعہ کوئی نہ کوئی منٹھار ڈرائیور بس کو بر وقت ریلوے پھاٹک پر نہ روک پایا اور بس پھاٹک توڑتی ہوئی گزر گئی یا ٹرین سے ٹکرا گئی، بارہا درجنوں جانیں ضائع ہوئیں۔ اس سب کے باوجود نہ تو کبھی کمپنی کے مالکان نے کوئی ایکشن لیا نہ کسی حکومت کو اس جانب متوجہ ہونے کا موقعہ ملا۔ تو مجھے اب رات ایک بجے والے منٹھار ٹائم پر سفر کرنا تھا۔
رکشہ لے کر لاری اڈے پہنچا، منٹھار ٹائم تیار تھا۔ سوار ہوتے وقت کنڈیکٹر کو اپنی منزلِ مقصود کا بتایا تو اس نے سوار کرنے سے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ “صرف توڑ دیاں سواریاں” مطلب کہ اسے صرف بس کی آخری منزل صادق آباد کی سواریاں درکار ہیں۔ لجاجت سے کہا کہ جانے دو بھائی، اس وقت اور کوئی بس بھی نہیں ملے گی، کنڈیکٹر کو شاید ترس آ گیا اور ہاتھ کے اشارے سے کہہ دیا کہ جانا ہے تو بس کی چھت پر چڑھ جاؤ۔ میں نے دوسرا سوال پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور زقند لگا کر بس کی سیڑھی پکڑی اور دو چار زینوں پر قدم رکھتے بس کی چھت پر جا پہنچا۔ لاری اڈے کے ادھ جلے برقی قمقموں کی ٹمٹاتی روشنی میں پہلی نظر میں مجھے اندازہ ہوا کہ پانچ چھ لوگ چھت پر پہلے سے سوار ہیں۔ میں نے ایک مناسب اور نسبتاً بہتر جگہ دیکھ کر اپنی جگہ بنائی تو ایک بھاری آواز کانوں میں پڑی۔۔”آو جی آو بسم اللہ۔ ۔بڑی جگہ اے اوپر” یہ غالباً کسی نے مجھے اپنے انداز میں خوش آمدید کہا تھا۔
میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک بھاری بھرکم جثے کے مالک اور اسی تناسب سے بڑے سر اور چہرے والے صاحب میرے سامنے بیٹھے تھے۔ یہ خوش آمدید انہوں نے کہا تھا۔ میں نے شکریہ ادا کیا، بس اب آہستہ آہستہ رینگتی ہوئی لائلپور کے اڈے سے باہر نکل رہی تھی۔
“کتھوں آئے او؟” ان صاحب نے مجھے سے مخاطب ہو کر سوال کیا۔
“سلاماں بادوں” میں نے تقریباً ان صاحب کے لہجے میں ہی جواب دیا۔
“پڑھے لخے لگدے او۔۔سلاماں باد پڑھدے او کہ نوکری کردے او؟” ان صاحب نے ایک اور سوال داغ دیا۔ وہ شاید گپ چپ شپ کے موڈ میں تھے۔
“جی نوکری کر داں” میں نے جواب دیا اور ساتھ ہی جوابی سوال بھی کر دیا “تسی کیہہ کردے او؟” اب میں کچھ دلچسپی لینے لگا تھا۔
“میں ریسلنگ کرداں۔۔واپڈا ولوں۔۔اقبال مسیح نام اے” ان صاحب نے جواب دیا اور نام بھی بتا دیا، اور مجھے انکے لحیم شحیم بھاری جثے کی وجہ بھی سمجھ آ گئی۔
بس اب آہستہ آہستہ رینگتی ہوئی کچھ رفتار پکڑ کر شہر سے باہر جانے کیلئیے جھنگ روڑ کی طرف رواں دواں تھی۔
ذہن کے کسی گوشے میں خیال پیدا ہوا کہ پہلوان آدمی ہیں اب باقی کے راستے انکی ڈینگیں سُننا پڑیں گی، لیکن پھر سوچا کہ چلو وقت اچھا کٹ جائے گا۔
گرمی کا موسم تھا اور چاندنی رات اپنے پورے جوبن پر تھی، ایسے میں بس کی چھت پر لگنے والی ہوا بہت بھلی محسوس ہو رہی تھی۔ میں بھی پنڈی میں ہونے والی بد مزگی کو بھول کر ذہن کو مصروف رکھنا چاہتا تھا سو پہلوان صاحب کی گفتگو میں مزید دلچسپی لینا شروع کر دی۔
“دیسی اکھاڑے والی کشتی لڑتے ہیں یا امریکہ والی فری سٹائل ریسلنگ کرتے ہیں” میں نے مادری زبان پنجابی ہونے کے باوجود لاشعوری طور پر اردو میں پوچھا، شاید میں تکلف برقرار رکھنا چاہتا تھا۔
“نئیں جی میں نیشنل ریسلنگ چیمپئین آں تے سیف گیمز کھیڈ کے آ ریاں” پہلوان اقبال مسیح نے جواب دیا۔
مجھے یاد آیا کہ ابھی حال ہی میں ساؤتھ ایشیئن فیڈریشن گیمز جن میں برصغیر کے سات ممالک حصہ لیتے ہیں ختم ہوئے تھے اور یہ صاحب مقابلوں میں شرکت کے بعد گھر واپس جا رہے تھے۔
“کوئی مقابلہ جتے وی او یا فیر اللہ دی آس تے ای کھیڈ کے آ گئے او؟” میں نے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی۔
بس اب شہر کے مضافات سے گزر رہی تھی۔ اس دوران کبھی کبھار بس ایک آدھ سواری لینے کیلئیے ذرا یوں آہستہ ہوتی کہ بس مکمل طور پر بریک نہیں لگاتی تھی، بغیر سامان اور بچوں والی سواری کو چلتی بس پر یوں چڑھنا ہوتا کہ مسافر بس کا ہینڈل پکڑتا، کنڈیکٹر مسافر کی بغل کے نیچے کلائی دے کر سہارا دیتا اور ساتھ میں “پیر رکھ۔۔پیر رکھ وِیر” کی تکرار کرتا جاتا۔ یہ پیر مسافر نے چلتی بس کے پائیدان پر رکھنا ہوتا تھا۔
“سلور میڈل جی۔۔۔ نیپالی توں میں جت گیا ساں۔ ۔ایرانی توں ہار گیا ساں” پہلوان اقبال مسیح نے نہایت سادگی سے واقعات کو بغیر کوئی مکھن لگائے جواب دیا۔
اب میری اقبال مسیح صاحب سے ایک طرح کی بے تکلفی پیدا ہو گئی تھی۔
“او خیر۔۔جناب بہت مبارک ہووے۔۔تسی ملک واسطے سلور میڈل جت کے لیائے او..تسی ساڈا فخر تے مان او جناب” میں نے نہایت خلوص سے پہلوان صاحب کو مبارکباد دی۔
“بڑی مہربانی جی۔۔” پہلوان صاحب ہلکا سا شرما سے گئے۔
ذہنی طور پر میں پہلوان اقبال مسیح کی سادگی اور انکساری سے کافی متاثر ہوا تھا، یہ صاحب ملک و قوم کیلئیے عالمی مقابلے میں سلور میڈل جیت کر آئے تھے اور اس وقت میرے ساتھ بس کی چھت پر بیٹھے سفر کر رہے تھے۔
اتنے میں بس نے سواری اٹھانے کیلئیے ذرا ہلکی سی بریک لگائی اور دوبارہ رفتار پکڑ لی۔ بس اب شہر سے باہر نکل رہی تھی۔
“آو جی آو۔ ۔ بسم اللہ۔۔بڑی جگہ اے اوپر” پہلوان نے پھر کسی کو خوش آمدید کہا۔
میں نے لاشعوری طور پر گردن گھما کر دیکھا تو ایک مسافر چلتی بس میں زینہ پکڑ کر چھت پر آ رہا تھا۔ جیسے ہی میری نظر پڑی میرے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی۔ ۔ ۔ یہ وہی پنڈی والا لیفٹینینٹ خرم تھا، جس نے دھکہ دے کر میری سیٹ چھینی تھی۔
پہلوان نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھت پر آنے میں مدد کی، خود ذرا سا کھسک کر اس کیلئیے جگہ بنائی اور اسکا بیگ پکڑ کر احتیاط سے ایک طرف رکھ دیا۔
لیفٹیننٹ خرم نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا۔ بس اب شہر سے باہر نکل کر فراٹے بھر رہی تھی اور چاندنی رات میں بس کے انجن کی مخصوص گونج نے آس پاس کے گزرتے مکانوں سے ٹکرا کر ماحول میں ایک پرلطف گونج پیدا کرنی شروع کر دی تھی۔
میں نے گردن گھما کر چہرہ ایک طرف کر لیا، مجھے مسٹر لیفٹین میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اپنی جگہ پر براجمان ہوتے ہی لیفٹیننٹ خرم نے براہِ راست مجھ سے مخاطب ہو کر بہ آوازِ بلند اسلام و علیکم کہا، میرا غصہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔ اسکے لہجے میں رعونت، تکبر وغیرہ عنقا ہو چکا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اب اسکے ساتھ دیگر دو ساتھی بھی نہیں تھے۔ میں نے سلام کا جواب چہرہ پھیرے پھیرے ہلکی سی گردن ہلا کر دیا۔
میرے ذہن نے صورتحال کا فوری تجزیہ کر لیا تھا، اسکے دیگر دو ساتھی شاید لائلپور میں ہی رک گئے تھے جبکہ اسے اب آگے جانا تھا، اور شاید اسے اپنی حرکت کا احساس ہوا ہوگا اور اب یہ صلح جوئی کے موڈ میں تھا۔ چونکہ پنڈی سے لیٹ پہنچا ہوگا اور جب پہنچا تو دیگر اڈے بند ہو چکے تھے لہٰذا میری طرح یہ بھی منٹھار ٹائم کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور تھا۔
بس اب اپنی روایتی تیز رفتار پکڑ کر دیگر گاڑیوں کو باآسانی اوور ٹیک کرتی سانپ کی طرح بل کھاتی اور لہراتی سڑک کے سینے پر فراٹے بھرتی جا رہی تھی۔
ہم تینوں نسبتاً بس کے اوپر درمیان میں بیٹھے تھے جبکہ بس کے آگے کے حصے پر کچھ کارگو اور اس کارگو کے اوپر چند لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہم براہِ راست ہوا کے شور سے متاثر نہیں ہو رہے تھے اور تیز رفتاری کے باوجود بات کرنا اور سننا ممکن تھا۔
“اللہ کرے خیریت سے پہنچ جائیں اور کوئی مسئلہ مسائل نہ ہوں” میں نے لیفٹیننٹ خرم کو نظر انداز کر کے بات بڑھانے کیلئیے پہلوان اقبال مسیح سے مخاطب ہو کر کہا۔ اقبال مسیح نے میرے زانو پر ہاتھ مارا اور کہا “ایس موقع تے میاں صاحب فرماندے نیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔” میرے ذہن نے ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں سمجھ لیا کہ پہلوان جی اب سیاسی فرمودات بیان کرنا چاہیں گے۔
جب میں نے ذرا توجہ کی تو دیکھا کہ پہلوان اقبال مسیح نیشنل ریسلنگ چیمپئین و سلور میڈلسٹ سیف گیمز بس کے چھت پر بیٹھے ایک کان پر ہاتھ رکھے چہرہ اوپر اٹھائے پورے زور سے گا رہے تھے۔۔
اوّل حمد ثناء اِلٰہی, جو مالک ہر ہر دا
اُس دا نام چِتارن والا ، کِسے میدان نہ ہردا
پہلوان اقبال مسیح صوفی بزرگ میاں محمد بخش کا کلام گا رہے تھے، گرمیوں کی بھرپور چاندنی رات اور چہرے کو لگتی ہلکی ٹھنڈی ہوا اور بس کے انجن کی گونج اور اس پر مستزاد یہ کہ پہلوان شعر پڑھتے ہوئے اول حمد ثناء الہیٰ پر جب پہنچتے تو الہٰی تلفظ کرتے ہوئے سینے سے آواز نکالتے ہوئے خاص زور ڈالتے جس سے لفظ الٰہی کی سربلندی اور عظمت واضح ہو جاتی اور چاندنی رات میں اک سماں سا بندھ جاتا۔
اوّل حمد ثناء اِلٰہی, جو مالک ہر ہر دا
اُس دا نام چِتارن والا ، کِسے میدان نہ ہردا
اب پہلوان اقبال مسیح نہایت عقیدت اور جوش سے گا رہے تھے۔ ۔
قُدرت تھیں، جس باغ بنائے، جگ سنسار تمامی
رنگ برنگی بُوٹے لائے ،کُجھ خاصے کُجھ عامی
“آپ پنڈی میں ہوتے ہیں یا اسلام آباد میں” پہلوان ذرا دیر کو سانس لینے کو رکے تو لیفٹیننٹ خرم مجھے سے مخاطب ہو کر بولا، لہجے میں معذرت خواہانہ پن اور چہرے پر دوستانہ پن نمایاں تھا۔
“اسلام آباد میں” میں نے سپاٹ چہرے سے جواب دیا۔
“میں بھی اکثر پنڈی سے نیو خان پینتھر ہی لیتا ہوں” لیفٹیننٹ خرم نے خود ہی بات آگے بڑھائی۔
پہلوان نے مجھے باتیں کرتے دیکھا تو پھر ران پر ہاتھ مار کر میری توجہ حاصل کی، میاں صاحب فرماندے نیں۔ ۔
جُدا جُدا ہرجُونے جوگے، جگ تے کیتے کھانے
اَنّھے لُوہلے ماڑے موٹے، ہر نُوں نِت پُہچانے
اور چاندنی رات میں پہلوان اقبال مسیح کی آواز دیر تک میاں محمد بخش کا کلام فضا میں نور کی مانند بکھیرتی رہی۔
پینسرہ سے ذرا پیچھے ڈرائیور نے بس کی رفتار ایک دم سے آہستہ کرتے کرتے ایک جگہ روڈ کی سائیڈ پر بس روکی، پتہ چلا کہ بس کا ایک پچھلا ٹائیر پنکچر ہو گیا ہے۔ مسافر بس سے نیچے اترنا شروع ہو گئے، پہلوان صاحب بس کنڈیکٹر اور ہیلپر کے ساتھ مل کر بس کی چھت سے اضافی ٹائیر اتارنے میں مدد دینے میں مصروف ہو گئے۔ میں بس سے کچھ دور کھیت میں ایک گرے ہوئے درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا، خرم بھی وہیں آ گیا۔ میں خاموش تھا۔ ۔
“آپ کیا کرتے ہیں؟” لیفٹیننٹ خرم نے مجھے پوچھا۔
“آپ نے پنڈی میں میری سیٹ کیوں لی؟ آپ نے مجھے دھکا کیوں دیا؟” میں نے اسکے سوال کا جواب دینے کی بجائے سپاٹ چہرے اور قدرے خشک لہجے سے براہ راست سوال کر دیا۔
” چلیں ہو گیا نا۔۔اب غصہ جانے دیں۔ ۔مجھے گھر لازماً پہنچنا تھا، والد صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔۔نیو خان والے ہم سے تعاون کرتے ہیں، آج اور کوئی گاڑی نہیں جا رہی تھی تو ذرا فائدہ اٹھا لیا۔۔چلیں آپ کو گاڑی مل گئی۔۔شکر ہے”۔
خرم نے وضاحت دی، یہ شاید اسکا معذرت کرنے کا انداز تھا گو کہ اسنے لفظ معذرت زبان سے ادا نہیں کیا لیکن بار بار ربط پیدا کرنے کی کوشش اسی بات کی غمازی کرتی تھی۔ میرا غصہ بھی اب قدرے ہلکا ہو چکا تھا۔ ہم ایک دوسرے کے بارے جاننے کیلئیے ہلکی پھلکی گفتگو میں مصروف ہو گئے۔ خرم ایک سفید ہوش متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ والد محکمہ زراعت سے ریٹائیرڈ افسر تھے، دورانِ ملازمت کوئی جائیداد وغیرہ بنا نہ سکے تو ریٹائیرمنٹ کے بعد آبائی گھر میں واپس آ گئے۔ ایک چھوٹا بھائی اور ایک چھوٹی بہن تھی۔ گھر کی گزر بسر زرعی زمین اور چھوٹی موٹی کاشتکاری سے ہوتی تھی۔ باتیں کرتے پتہ بھی نہ چلا کہ کب میرا رنج اور غصہ ختم ہوگیا اور ہم دوست بن گئے، متوسط طبقے کے دو سفید پوش اپنے اپنے بھرم رکھتے دوست۔
ٹائیر تبدیل ہو چکا تھا، کنڈیکٹر نے آواز لگائی کہ تمام سواریاں بس میں اپنی اپنی جگہ پر واپس سوار ہو جائیں۔ بس نے دوبارہ رفتار پکڑی تو پہلوان اقبال مسیح نے پھر زانو پر ہاتھ مارا۔۔”لو جی میاں صاحب فرماندے نیں۔۔۔”
اور پھر اقبال مسیح کلامِ میاں محمد بخش سناتے رہے اور خرم اور میں توجہ سے سنتے رہے۔ ایک موقع پر پہلوان صاحب کے برابر میں بیٹھے دیہاتی شخص نے چھت پر اگلے حصے پر بیٹھے ساتھی کو مخاطب کرنے کیلئیے گلا پھاڑ قسم کی آواز لگائی۔۔
“او بھاء پرویز اوئےےےےے” ہوا کے باعث اسکی آواز ٹھیک سےآگے تو نہ پہنچ سکی لیکن چھت پر سوار دیگر مسافروں نے ایک دوسرے کے کندھوں کو ٹہوکا دے کر بھاء پرویز کو متوجہ کر دیا۔ وہ جاننا چاہ رہا تھا کہ کس سٹاپ پر اترنا ہے۔ پرویز نے اسے سٹاپ بتا دیا۔
پہلوان اقبال مسیح کو یہ دخل در نامعقولات نہایت ناگوار گزرا، نہایت غصے سےساتھ بیٹھے گلا پھاڑ آواز دینے والے شخص سے مخاطب ہونے کیلئیے مڑے تو میں سمجھ گیا کہ پہلوان کا پارہ ہائی ہو چکا ہے اور یہ کہ کہیں دیہاتی آدمی کے مُکہ وغیرہ ہی نہ جڑ دیں۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ۔ ۔ پہلوان نہایت غصے سے اس شخص سے مخاطب ہو کر اور میری طرف اشارہ کر کے بولے۔ ۔
“!!!اےبچہ بہت اچھا اے۔۔دیکھو کنی توجہ نال کلام سن ریا اے
دیہاتی آدمی خاموش رہا۔
میں پہلوان صاحب کی معصومیت، بے ضرر طبیعت، انکساری اور میاں محمد بخش صاحب کے کلام سے عشق سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔ پورے سفر کے دوران پہلوان اقبال مسیح صاحب نے میری توقعات کے برعکس نہ تو کوئی اپنی زور آوری کی ڈینگ ماری، نہ کسی تاریخی کشتی کا قصہ سنایا اور نہ ہی اپنے سلور میڈل پر تکبر کیا۔ اگر کوئی بات کی تو یا تو دوسروں کیلئیے جگہ بناتے ہوئے انکو خوش آمدید کہا اور یا پھر میاں محمد بخش صاحب کا کلام سنایا۔۔اور پورے جی جان سے سنایا۔
چند منٹوں بعد لیفٹیننٹ خرم کا سٹاپ آ گیا تھا، اسے اسکا بھائی لینے کیلئیے موٹر سائیکل پر انتظار کر رہا تھا۔ خرم نہایت گرمجوشی اور تپاک سے ملا اور وعدہ کیا کہ اسلام آباد آئے گا تو مللاقات ہوگی۔ اسکے کچھ ہی دیر بعد پہلوان اقبال مسیح کا سٹاپ بھی آ گیا۔۔پہلوان نے مجھ سے فون نمبر لیا اور خود ہی اپنے آپکو میرے ہاں مدعو بھی کر لیا اور مجھے تاکید کی کہ ایک عدد خاموش کمرے کا انتظام رکھوں تو وہ مجھے اور میرے دوستوں کو جی بھر کے میاں صاحب کا کلام سنائیں گے۔ مزید آدھ پون گھنٹے کے بعد میرا سٹاپ بھی آ گیا تھا۔ ۔سو میں بھی اپنی منزل کا راہی ہوا۔
سوچ کی لہریں مجھے حال میں واپس لے آئیں، اخبار کے پچھلے صفحے پر تصویر کے ہمراہ دو کالمی خبر تھی کہ “آرمی کے کیپٹن خرم گھر میں ڈکیتی کی واردات کے دوران مزاحمت کرنے پر ڈاکوؤں کی فائرنگ سے جاں بحق” تصویر میں خرم کا چہرہ اب کچھ بھرا بھرا لگ رہا تھا، میرے دل بیٹھ سا گیا، یوں لگا جیسے سانس اٹک گئی ہو، بوڑھے ماں باپ کو جواں سال اور گھر کے بڑے بیٹے کی موت کا صدمہ۔۔ میرے لئیے دکھ بیان سے باہر تھا۔
کیپٹن خرم کی خبر سے دو کالم پرے ایک سنگل کالمی خبر تھی “واپڈا کے ریسلر اور سابق نیشنل چیمپئین اقبال مسیح دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ اتفاق سے میرے دونوں ہمسفروں کی خبر ایک ہی دن آئی تھی۔
خدا آسانیوں کا معاملہ کرے۔۔ ۔ کیا ہی شاندار شخصیت تھے۔۔ پہلوان اقبال مسیح کا چہرہ آنکھوں کے سامنے اور انکی بھاری آواز اگلے کئی دن میرے کانوں میں گونجتی رہی۔۔
اوّل حمد ثناء اِلٰہی, جو مالک ہر ہر دا
اُس دا نام چِتارن والا ، کِسے میدان نہ ہردا
0 Comments
کیا خوب کالم ہے بھائی جان اور کیا خوب منظر کشی کی ہے۔ ایک لمحے کیلئے توں یوں لگا کہ آپکے ساتھ خاموش مسافر بنے سفر کر رہے تھے۔۔
جزاک اللہ الخیر
کیا خوب لکھا ہے۔ نہایت سلیس انداز بیاں۔ خوب لکھئے
V heart touching nd heartbreaking 💔 😢 May both souls rest in peace 🙏 express felling very well excellent
دوسری بار پڑھا وہی درد اور وہی اپنائیت ،
شکریہ