استنبول سے پانچ گھنٹےکی فلائیٹ کے بعد ٹرکش ائیر لائن کی فلائیٹ اٹینڈنٹ نےاعلان کیا کہ تقریباً نصف گھنٹے بعد لاہور علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر لینڈنگ ہوگی اورساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ گورنمنٹ آف پاکستان کے قانون کے مطابق پاکستان میں داخلےکیلئیےڈس ایمبارکمنٹ فارم پُر کرنا ضرری ہے، ایک دوسری تُرک فضائی قتالہ نے تمام مسافروں کو فارمز اور پنسل تقسیم کرنا شروع کر دئیے ہم نے فخر سے سر اوپر اٹھا کر جائیزہ لینے کیلئیےادھر ادھر گردن گھما کر دیکھا تو گورے مسافرنہایت توجہ سےفارمز پُر کرنے میں مصروف تھے جبکہ پاکستانی مسافر ہماری طرح فخر سے سر اوپر اٹھا کر ادھر ادھر گردن گھما رہے تھے۔ یقین مانیں چند لمحات کیلئیے تو گوروں کو اتنی تابعداری سے پاکستانی قانون کی پابندی کرتے دیکھ کر ایک گوناں گوں خوشی کا احساس ہوا۔ یقیناًچند دیسیوں کے کان لال بھی ہوئے ہونگے۔
علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر لینڈنگ کے بعد میں چونکہ اکیلا سفر کر رہا تھا اس لئیے ان مسافروں کے ساتھ شامل ہو گیا جو جہاز سے پہلے باہر نکلے تھے۔امیگریشن کاؤنٹرز پر پہنچے تو دیکھا کہ کاؤنٹرز تین الگ حصوں میں تقسیم ہیں، پہلا پاکستان کے شہریوں کیلئیے، دوسرا فیملیز کیلئیے اور تیسرا فارنرز یعنی غیر ملکی پاسپورٹ ہولڈرز کیلئیے مخصوص ہے۔ میرے آگے چلنے والے صاحب تیز تیز چلتے ہوئے فیملیز والے کاؤنٹر پر جا کھڑے ہوئے حالانکہ وہ بھی میری طرح اکیلے تھے۔ائیر پورٹ سکیورٹی فورس کےایک اہلکار نے ان صاحب کو درست لائن کی نشاندہی کی مگر انہوں نے ایسی گھُوری ڈالی کہ اے ایس ایف کے اہلکار نے خاموش ہونے میں ہی عافییت جانی۔ میں چونکہ غیر مُلکی پاسپورٹ پر سفر کر رہا تھا اس لئیے فارنرز والی لائن میں کھڑا ہوگیا۔ میرے آگے شائد دس افراد تھے ان میں سے کم از کم پانچ کے پاس سبز پاکستانی پاسپورٹس تھے یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے پاکستانی شہریت والی لائن نسبتاً لمبی دیکھ کر اس لائن میں لگنا اپنی ہتک خیال کیا، میرے پیچھے کھڑے گوروں نے حیرت سے کاؤنٹر کے اوپر لکھے ہوئے بورڈ کو پھر پڑھ کر کندھے اچکائے جس پر واضح الفاظ میں فارن پاسپورٹ ہولڈرز لکھا ہوا تھا۔ یاد رہے یہ وہی سیچوائشن تھی جس پر چند ماہ پہلے جنرل حمید گل کے صاحبزادے جناب عبداللہ گل اسلام آباد ائیرپورٹ پر باقاعدہ ہاتھاپائی ہو چکے تھے۔ اندازہ ہے کہ یہ کام ہر فلائیٹ کے آنے کے بعد ہوتا ہوگا اسی لئیے اے ایس ایف اور ایف آئی آے والے اس کا نوٹس لینا کب کا ترک کر چکے تھے۔
میری توجہ ایک بار پھر پیچھے کھڑے گورے کی آواز نے ایف آئی اے کی خاتون اہلکار کی طرف دلائی جو پاسپورٹ چیک کر رہی تھی، گورا اپنے پیچھے والے ساتھی کو حیران ہو کر بتا رہا تھا کہ لیڈی تو ڈِس ایمبارکمنٹ فارم چیک بھی نہیں کر رہی۔چند لمحات کے بعد جب میری باری آئی تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ایف آئی اے کی لیڈی ایجنٹ نے فارم کا پوچھا تک نہیں اور مُہر لگا کر پاسپورٹ میرے حوالے کر دیا، جب میں نے پوچھا کہ کیا اس فارم کی ضرورت ہے؟ تو جواب ملا ‘چھوڑیں جی آپ جائیں یہ تو ایسے ہی ہے’ وہ حکومتِ پاکستان کا جاری کردہ سوالنامہ جو پاکستان داخلے کیلئیے اشد ضروری ہے ابھی تک میرے پاس موجود ہے جبکہ میں واپس آ چکا ہوں۔
کیروسیل (جس بیلٹ سے بیگز وغیرہ اٹھاتے ہیں)سے سامان اٹھانے کیلئیے پورٹر سے ہزار روپے میں معاملہ طے ہوا اسنے تھوڑی دور ساتھ چلنے کے بعد ایک دوسرے ساتھی کو آواز دی اور بولا سر جی آپکا سامان افضل لوڈ کر دے گا آپ بے فکر ہو جائیں، میں افضل کو ساتھ لے کر کیروسیل بیلٹ کی طرف چل پڑا کچھ دیر بعد بیگز آ گئے، افضل پورٹر نے بیگز اٹھائے اور مجھے لینے آنے والی گاڑی میں رکھے اور بولا صاحب جی تسلی کر لیں آپکا سارا سامان رکھ دیا ہے میں نے چیک کیا اور اسکا شکریہ ادا کیا تو اسنے پیسوں کا تقاضا کیا میں نے جواب دیا کہ میری بات تو پہلے والےپورٹر سے ہوئی ہےمیں پیسے اس کو دوں گا تو افضل بولا کہ جناب سامان تو آپکا میں نے رکھا ہے اسکی بات میں وزن تھا میں نے اسے پیسے دے دئیے اور وہ نکل لیا، جیسے ہی وہ نظروں سے اوجھل ہوا تو پہلے والا پورٹر آگیا کہ جناب آپکا سامان رکھا گیا ہے اب مجھے پیسے دے دیں میں نے کہا کہ پیسے تو افضل لے گیا ہے تو وہ بولا کہ آپکی بات تو مجھ سے ہوئی ہے نا تو آپ نے پیسے مجھے دینے تھے یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی آواز بلند کرنا شروع کر دی اور تین چار اور پورٹرز اور بھی آ گئے، میں لمبی فلائیٹ سے آیا تھا جھگڑا نہیں کر سکتا تھا چارو نا چار اسے بھی ہزار روپے دئیے۔ یہ صورت حال تقریباً سب کے ساتھ ہوتی ہے اور مجھے بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ ایک مخصوص طریقہِ واردات ہے
چند دن بعد پنجاب کے ایک نسبتاً چھوٹے مگر ضلعی شہر میں حبیب بینک جانا ہوا، بینک کے اندر داخل ہوتی ہی ایک خوشگوار حیرت کا احساس ہوا جب میری نظر نمبر سسٹم پر پڑی، ایک کونے میں نمبر والی ٹکٹس دینے والی مشین تھی جبکہ چھت کے ساتھ آہنی کڑیوں کے ساتھ الیکٹرانک ایل ای ڈی سکرین لٹک رہی تھی جس پر باری والا نمبر ظاہر ہو رہا تھاایک ایل سی ڈی ٹی وی تجزئیے اور خبریں دکھا رہا تھا، بینک کا ماحول بھی صاف ستھرا تھا مگر چند لمحات گزارنے کے بعد احساس ہوا کہ صورتِ حال ویسی نہیں ہے جیسی نظر آتی ہے جیسے جیسےلوگ آنا شروع ہوئے صرف بیس فیصد نمبرز والی ٹکٹس لے رہے تھے جبکہ باقی بغیر نمبر کے ہی کیشئیر تک جا رہے تھے، لائن میں لگنے والے افراد کی تعداد چالیس فیصد سے زائد نہیں تھی اور وہ بھی صرف وہی لوگ تھے جو دیہاتی علاقوں سے آئے تھے زیادہ تر افراد لائن کو نظر انداز کر کے ایک دوسرے کے کاندھوں کے اوپر سے بازو گزار کر کیشئیر تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ ایک خاص تعداد ان افراد کی بھی تھی جو خود پییچھے کھڑے رہتے تھے مگر اپنی گھریلو خواتین کو چیک دے کر آگے بھیج رہے تھے اور یہ خواتین اپنے خصوصی زنانہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے متزکرہ بالا دونوں لائن اور بغیر لائن والے افراد کو بھی بائی پاس کر رہی تھیں۔ میں چونکہ لائن میں تھا اس لئیے میری باری آنے تک ڈیڑھ گھنٹہ اور دو پانی کے گلاس صرف ہو چکے تھے۔
پاکستان سے واپس روانگی کے وقت ائیرپورٹ پر کسٹم کے ایک باریش اہلکار نے روک کر پوچھا بیگ میں کیا ہے؟ اسے بتایا کہ کچھ اپنے اور بیگم کیلئیے کپڑے ہیں، اسنے مطلع کیا کہ کپڑے لے جانے پر تو ‘ڈیوٹی’ لگتی ہے، عرض کیا اگر عام استعمال کےکپڑوں پر بھی ڈیوٹی لگتی ہے تو پھر ہم لے کر کیا جا سکتے ہیں؟ میرے سوال کے جواب میں اسنے ادھر ادھر دیکھا میری شرٹ کی سامنے والی پاکٹ سے پانچ سو روپے کا نوٹ اُچک لیا اور اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا دوسرے ہاتھ سے میری ٹھوڑی کو ہاتھ لگا کر انتہائی لجاجت سے بولا ‘ اللہ بوہتا دوے تسی تے جا کہ ہور بنا لینے نیں ساڈا غریباں دا کچھ خیال کر دے جاؤ’۔
ایسے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے اور در حقیقت یہ سب بیان کرنے کا مقصد اس بات کی نشاندہی کرنا ہے کہ ہمارے معاشرے کو جس تبدیلی کی سب سے پہلے اور اشد ضرورت ہے وہ ہمارے اجتماعی اور انفرادی روئییوں کے اندر تبدیلی ہے، یہ تبدیلی تو ہمیں آج سے چودہ سو سال پہلے بتا دی گئی تھی مگر شعوری یا لا شعوری طور پر اس ترتیب و تبدیلی سے دوری کو ہم اپنا فخر اور شعار بنا چکے ہیں۔
معاشرے ایسے ہی بنتے ہیں۔ اگر ہم میں سے ہر ایک فرد یہ سمجھنا شروع کر دے کہ مجھے سرخ اشارے پر رکنے کی ضرورت نہیں تو سرخ اشارے کا مقصد فوت ہو جائے گا، ڈیوٹی پر کھڑا وارڈن کتنوں کا چالان کر سکتا ہے؟ پورے شہر کو تو بند نہیں کر سکتا۔ در حقیقت تبدیلی تب تک نہیں آ سکتی جب تک ہم میں سے ہر ایک توقعات کم کر کے پہلے اپنا انفرادی رویہ تبدیل نہیں کرتا۔ وہی لیڈر اس قوم کی کشتی پار لگا سکتا ہے جو اپنی ذات کو مثال بنا کر ڈسپلن پر عمل کرے اور کروائے۔ لائن میں کھڑا ہونا معمولی سی بات ہو سکتی ہے مگر جس تبدیلی کا ہم انتظار کر رہے ہیں وہ دراصل ہماری ذات سے ہی شروع ہوتی ہے اور لائن میں لگ کر صبر اور ترتیب کا مظاہرہ کرنا اس تبدیلی کا ہی ایک مظہر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ہر کام میں شارٹ کٹ چاہتے ہیں چاہے شارٹ کیلئیے ہمیں باقاعدہ طریقہ کار سے زیادہ خرچہ اور خواری ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ہمارا ڈسپلن صرف موٹروے تک محدود ہے موٹروے سے اتر کر ہم ٹریفک لین کو فالو کرنا تو کیا ٹریفک لائیٹ تک بھول جاتے ہیں۔ اجتماعی طور پر ہم ہر دو نمبر طریقہ اختیار کر کے خود کو سمارٹ اور زہین تصور کرتے ہیں۔ سٹوڈنٹ لائف میں لاہور کی پرانی انارکلی میں آٹے کی بنی ہوئی پوُریاں اور میدےکے بنے ہوئے پراٹھے بنتے اور دھڑا دھڑ بکتے دیکھا کرتے تھے حالانکہ انکی ترتیب الٹی ہونا چاہئیے تھی۔ اسی لئیے استدلال یہ ہے کہ ہمیں ایک انگلی کسی بھی حکومت پر اٹھانے سے پہلے بطور معاشرہ چار انگلیاں اپنی طرف اشارہ کرتی ہوئی دیکھنا ہونگی۔
0 Comments
بہت اعلی تحریر مگر ہمارے عمومی رویے کی اچھی یا بری تربیت ہمارے گھروں سے ہونی چاہیے ان چیزوں کے لیے ہمیں حکومت یا پارٹی کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے.