’مزید اعلٰی تعلیم’ کیلئیے نئے نئے لاہور پہنچے تو ایک دن گلبرگ سے گزرتے ہوئے ہم چار دوستوں نے فیصلہ کیا کہ منی مارکیٹ میں ایک نیا کھلنے والا بڑا چائینیز ریسٹورنٹ ٹرائی کیا جائے، ہم مڈل کلاسیوں میں سے شاید ہی کسی نے پہلے بڑا ریسٹیورینٹ ٹرائی کیا ہو۔ لہٰذا پہلے تو ہم میں سے کسی کو ریسٹورنٹ کے اندر جانے کی ہی ہمت نہ ہوسکی، دس منٹ تک تو ہم چاروں ایک دوسرے کو مشورہ دیتے رہے کہ پہلے تم اندر جاؤ۔
خیر میں نے ہمت کر کے پہلے دروازے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو بدحواسی میں سمجھ ہی نہ آئی کہ شیشے کا بھاری دروازہ اندر کی طرف کھلتا ہے یا باہرکی طرف، دو تین منٹ کوشش کرنے کے بعد پتہ چلا کہ دروازے کا دوسرا حصہ باہر کی طرف کھلتا ہے جسکو میں نے چھیڑا ہی نہ تھا۔ اُڑے اٰڑے چہروں کے ساتھ میرے پیچھے باقی تینوں بھی آ گئے۔ ۔ ۔ مینیجر آن ڈیوٹی نے ویلکم کیا اور چائینیز ریسٹورنٹ کے سٹاف کے دیسی چہرے نظر آئے تو ہمارا اعتماد کچھ بحال ہو گیا۔
مینیجر نے ایک ٹیبل تک ہماری رہنمائی کی۔ ہم سیٹوں پر بیٹھ گئے تو ویٹر آرڈر لینے آ گیا۔ ہاتھ میں مینیو فولڈر پکڑا ہوا تھا جو اس نے ہماری طرف بڑھانے کی زحمت ہی نہیں کی۔ قریب آ کر نہایت سرگوشی میں بولا ‘سر، رہنے دیں کسی اور جگہ چلے جائیں یہ کافی مہنگا ہے’ ۔ ۔ ظالم ویٹر شاید ہمارے چہروں سے ہی بھانپ گیا تھا کہ پہلی بار آئے ہیں۔
ویٹر کی بات نے ہماری انا مجروح کی تھی، اب یہ لازم ہو چکا تھا کہ ہم ویٹر کو ثابت کریں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
مجھے پھر ہمت کرنا پڑی باقی تینوں گونگلو سہمے سہمے کبھی ویٹر کی شکل دیکھ رہے تھے اور کبھی مینجر کی۔ ۔جو دور کھڑا تماشا دیکھ رہا تھا۔
میں نے کہا۔ ۔ ۔ شکریہ دوست۔۔ایسی کوئی بات نہیں تم مینیو لاؤ۔ ۔ ۔ ویٹر مینیو کارڈ پکڑاتے ہوئے پھر بولا، ‘سر میں بھی آپ کے جیسا ہی ہوں میں خود مین مارکیٹ سے کھانا کھاتا ہوں۔ ۔ ۔آگے آپکی مرضی ہے’۔
خیر، میں نے مینیو فولڈر پکڑ کر پھرولنا شروع کیا تو ماتھے پر ایک ٹھنڈے پسینے کے ساتھ چکر سا آیا۔ ۔ سیالکوٹ کے ہمارے یار کاشف نے سہمی سہمی نظروں سے سرگوشی میں مشورہ دیا۔۔۔’اوئے چلو اٹھ کے دوڑ لا دئیے’۔
باقی دو ایک دوسرے کی شکلیں تک رہ تھے۔ میں نے کہا۔۔’نہیں اس طرح تو انہیں اس بات کا یقین ہو جانا ہے، جسکا ہم چاہ رہے ہیں کہ انکو یقین نہ ہو!’۔
خیر، چونکہ اب تک مجھے ہی ہر بات میں ہمت کرنا پڑ رہی تھی تو میری قیادت میں باقی بھی بیٹھے رہنے پر نیم رضامند ہو گئے۔ ویٹر دور کھڑا یوں تماشا دیکھ رہا تھا جیسے اسے اس ساری کہانی کے انجام کا پہلے سے پتہ ہو۔
میں نے ایک بار پھر ہمت کی اور میز کا کونہ بجا کر مرحوم اداکار محمد علی کے انداز میں کہا۔۔’ویٹر۔۔!’ ۔
ویٹر یوں پراعتماد قدموں سے ہمارے پاس آیا جیسے ہمیں ہمارے یہاں سے بھاگ جانے کے فیصلے پر شاباش دینے آیا ہو۔
جب تک ویٹر آیا تو میں فیصلہ کر چکا تھا کہ کم از کم ایک کولڈ ڈرنک تو پی کر جائیں گے تاکہ جانے سے پہلے کچھ تو بھرم رہ جائے۔
میں نے مینیو کارڈ میں ڈرنکس کا صفحہ کھولا تو اس دور میں سات روپے والی پیپسی کی بوتل کی قیمت مینیو میں پچھتر روپے لکھی ہوئی تھی، میرے معدے میں جیسے ایک گھُسن سا پڑا۔ دل چاہا کہ ویٹر کو ننگی گالیاں دوں کہ اینی لُٹ۔۔تہانوں پچھن والا کوئی نئیں؟ پھر خیال آیا کہ ویٹر نے کہنا ہے کہ ‘میں نے کہا تو تھا’۔
ویٹر پاس آیا تو مجھے یاد آیا کہ وحید مراد فلموں میں سیون اپ نما ڈرنک پیا کرتے تھے جس کے گلاس کے کنارے پر لیموں کا ٹکڑا لگا ہوتا تھا۔
ایک دفعہ پھر اعتماد جمع کیا اور آواز میں رعب جمع کر کے اور ایک ہاتھ دل و جیب پر رکھ کر ویٹر کو کہہ دیا کہ ‘سپرائٹ ہوتی ہے تم لوگوں کے پاس؟ ویٹر نے مجھے جواب دینے کی بجائے پیچھے مڑ کر مینیجر سے کہا ‘چار سپرائٹ پہجوا دیو ایناں نوں’.. مطلب کہ یہ ویٹر کسی طرح بھی ہمیں سنجیدہ لینے کیلئیے تیار ہی نہ تھا۔
اب جب کہ میں آرڈر پلیس کر چکا تھا تو میرے باقی تینوں یار مینیو فولڈر پر جھپٹا مار کر جلد از جلد قیمت دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
کاشف کا تو قیمت دیکھتے ہی رنگ فق ہو گیا، مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔۔۔’ایناں نوں کہہ۔۔زیادہ توں زیادہ دس روپے دی بوتل لا لؤ۔۔اسی اس توں زیادہ نئیں دینے!’ ۔
میں نے کہا کہ کاشی یار یہاں اس طرح نہیں ہوتا۔ سرگودھے کا بلال اور کراچی کا مراد بھی میرے ساتھ اس شرط پر متفق ہو گئے کہ فی الحال بِل تم دے دو، ہم تمھیں بعد میں ادا کر دیں گے۔ جو لوگ ہوسٹل لائف گزار چکے ہہں انہیں علم ہوگا سٹوڈنٹ لائف میں وہ ‘بعد’ پھر کبھی بھی نہیں آیا کرتی۔
خیر۔ ۔ ویٹر ہمارے لئیے کولڈ ڈرنکس لے کر آیا تو کرسٹل کے گلاسوں میں سپرائٹ تھی اور کناروں پر ایک لیموں کا ٹکڑا لگا ہوا تھا۔ میرے تینوں یار ایک دم سے کھل اٹھے۔ ۔ واہ یار۔۔یہ تو وی آئی پی کام ہوگیا۔
ریسٹورنٹ کا مینجر دور کھڑا دیکھ رہا تھا۔
کولڈ ڈرنک سرَو ہو گیا تو کاشی کولڈ ڈرنک کا ایک سِپ لیتے ہوئے سرگوشی میں بولا۔ ۔’میں پیہے نئیں دینے۔ ۔ میرے ابو غصے ہون گے’
بلال سرگوشی میں بولا۔ ۔تو بھائی یہ کولڈ ڈرنک پینے سے پہلے سوچنا تھا۔
اب ویٹر اور مینجر دور کھڑے ہمیں دیکھتے ہوئے زیرِ لب مسکرا رہے تھے جیسے انہیں صورت حال کا پہلے سے علم ہو۔
ہم نے جیسے تیسے کر کے اپنے ڈرنک ختم کئیے اور فلموں والے اداکار ندیم ںیگ کے انداز میں ویٹر سے کہا کہ۔۔’ذرا بِل لے آئیے۔۔’
ویٹر پھر دور سے ہی تنبیہی انداز میں بولا ‘368روپے ہو گئے تہاڈے..میں کیہا سی نا’ ۔
میں نے کاونٹر پر جا کر بل کے ساتھ گھر سے ملنے والے خرچے سے پانچ سو کا نوٹ دیا تو رسپیشنٹ نے 368 کاٹ کر باقی 132 واپس کر دئیے۔ میں نے امیتابھ بچن کے سے لاپرواہ انداز میں اوپر کے 32 روپے ٹِپ دینےکی کوشش کی تو ویٹر ٹِپ واپس کرتے ہوئے بولا۔۔۔’رکھ لؤو رکھ لؤو پائن۔ ۔ماں پیو نے پڑھن پیہجیا۔ ۔سوچ سمجھ کے خرچ کرنا چاہیدا’۔
ویٹر کے احساس اور ہمدردی پر وقتی طور پر غصہ تو بہت آیا۔ ۔ لیکن پھر ہم نے ویٹر کی بات مان لی۔
دروازے سے باہر نکلنے لگے تو پیچھے سے مینجر کی آواز آئی۔۔’یونیورسٹی سے آئے لگتے ہیں؟’
میں نے اثبات میں سر ہلایا اور دوستوں کے ساتھ باہر نکل گیا۔
اسکے بعد کئی سال لاہور رہے جاب بھی کی لیکن پھر کبھی اس ریسٹیورینٹ جانے کا حوصلہ نہیں پڑا۔
وہ عظیم ویٹر اب بھی یاد آتا ہے۔۔ بعد کی زندگی میں بڑے بڑے ریسٹیورنٹ گئے مگر اس قدر احساس اور دردِ دل والا ویٹر پھر کبھی نصیب نہیں ہوا۔
0 Comments
زندگی میں بہت سی باتوں کی طرح سمجھ نہیں آئی کہ گلاس کے کنارے پر اٹکی لیموں کی قاش یا ننھی سی چھتری کا کیا کرتے ہیں۔