یہ تحریر شاید سب کیلئیے نہ ہو، مثلاً اگر آپ شعوری ارتقاء کی اس منزل پر پہنچ چکے ہیں جہاں انفرادی طور پر خدا، عقیدہ، مذہب، ایمان اور آخرت جیسے الفاظ آپکو سائینس اور فلسفے کی چکاچوند میں دھندلے نظر آتے ہوں یا دین کے کسی پہلو پر گفتگو کرتا ہر شخص آپکو بنیاد پرست اور خود کش بمبار نظر آتا ہو تو شاید یہ سب آپ کو وقت کا ضیاع محسوس ہو اور کوئی دوسری تحریر آپکے لئیے زیادہ دلچسپی کا باعث ہوگی۔
اپنی ذات کی حد تک بنیادی عبادات ، مذہب، ایمان، حقوق العباد، آخرت، یومِ حساب اور جنت دوزخ میرے یقین و ایمان کا اتنا ہی حصہ ہیں جتنا کے اس دنیا میں میرا اپنا وجود ایک حقیقت ہے. با الفاظِ دیگر میں خود کو دانشوری کی ایسی اعلٰی منزل پر فائیز نہیں سمجھتا جہاں سائینس میگزین کی ہر تحریر تو میرے لئے مکمل دلچسپی کا باعث ہو مگر قرآن و حدیث کو شک کی نظر سے دیکھوں لہٰذا نماز میں بے قاعدگی کے باوجود آج بھی بھاگتا ہوا بچہ گر جائے تو زبان سے بے اختیار بسم اللہ نکلتا ہے، آیت الکرسی کو ہر قسم کےخوف کے خلاف بہترین تحفظ سمجھتا ہوں, صدقہ اور خیرات پر بھی یقین ہے اور مَنت کے طور پر نوافل بھی مان لیتا ہوں۔
اس تحریر کے ماخذ دو حقیقی واقعات ہیں جن کو میں ایک دوسرے کے تناظر میں دیکھتا ہوں تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے اور میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں. ان میں پہلے واقعے کا میں خود چشم دید گواہ ہوں اور دوسرا واقعہ جیکسن ویل فلوریڈا میں رہائش پذیر ایک عزیز دوست نے گوش گزار کیا۔
واقعہ ۱
پچھلے سال دسمبر کی انیس تاریخ کو مجھے بیگم کے ہمراہ ایک قریبی عزیزہ کی تیمار داری کی غرض سے ٹورنٹو کے ایک بڑے ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا جہاں وہ کینسر وارڈ میں زیرِ علاج تھیں. خاتون پچھلے ایک سال سے کینسر کے آخری سٹیج کا شکار تھیں اور ہم وقتاً فوقتاً انکی بیماری کے دوران انکے گھر ملنے جاتے رہتے تھے مگر ہسپتال میں یہ چار دن پہلے ہی داخل ہوئیں۔ ہسپتال پہنچے تو کینسر ڈیپارٹمنٹ میں موجود انکے شوہر جاوید صاحب سے ملاقات ہوئی انہوں نے بتایا کہ کل شام سے مکمل طور پر بے ہوش ہیں۔ کینسر نہایت تیزی سے جسم میں پھیلنا شروع ہو چکا ہے اور اب کوئی دوا کارگر ثابت نہیں ہو رہی۔ مزید یہ کہ ڈاکٹرز نے بتایا ہے کہ انکے پاس شاید چند دن سے زیادہ باقی نہیں ہیں۔ جاوید صاحب (شوہر ) کی آنکھیں شاید مسلسل جاگنے یا پھر شریکِ حیات کے بچھڑنے کی غم کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں۔ میری بیگم مریضہ کے پاس کمرے میں ایک کرسی پر بیٹھ گئیں جہاں مریضہ گہرے قومے کی حالت میں بیڈ پر دراز تھیں جبکہ چار دیگر خواتین موجود تھیں جو نم آنکھوں کے ساتھ قرآن کی تلاوت میں مصروف تھیں. میں جاوید صاحب کی تالیفِ قلب کے لئے انکو ساتھ لے کر ویٹنگ روم میں لے کر آ گیا، خیال تھا کہ انکو کچھ سینڈ وچ وغیرہ دوں جو کہ ہم گھر سے بنا کر لائے تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ انہوں نے کافی دیر سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ ابھی ہمیں چند لمحے ہی ہوئے تھے کہ ایک نرس ہمارے پاس تیز تیز قدموں چلتی ہوئی آئی اور آ کر بتایا کہ بد قسمتی سے مریضہ کا کنیسر دماغ تک پہنچ چکا ہے اور اب انکے پاس صرف چند لمحات باقی ہیں, آپ لوگ اگر چاہیں تو انکے پاس کمرے میں آ سکتے ہیں۔ یہ اچانک اور انتہائی غیر متوقع صورتحال تھی جس نے ہم دونوں کے اعصاب پر اثر ڈالا۔ ہم گھبراہٹ کا شکار ہو کر نرس کے ساتھ تیز تیز چلتے ہوئے کمرے کے طرف بڑھنے لگے نرس بتانے لگی کہ کینسر انتہائی تیزی کے ساتھ دماغ کو متاثر کر چکا ہے اور اب جسم کے بیشتر اعضاء کام چھوڑ چکے ہیں اور اسوقت انکا ہوش میں آنا تو درکنار مریضہ کو اپنے ہاتھ پاؤں تک ہلانے پر اختیار باقی نہیں رہا۔ ہم کمرے میں پہنچے تو خواتین آنکھوں سے آنسو صاف کرتی اور گلو گیر آواز کے ساتھ مسلسل قرآن خوانی کر رہی تھیں۔ جاوید صاحب اپنی دکھ سکھ کی ساتھی اور شریکِ حیات کی حالت دیکھتے ہی جذبات پر اختیار کھو بیٹھے اور پھوٹ پھوٹ کر رو دئیے. میں نے انہوں دلاسے کیلئے گلے لگا لیا. میں مریضہ کے بیڈ کے پائینتی کی طرف کھڑا تھا جبکہ باقی لوگ بیڈ کی اطراف میں تھے یہی وہ لمحات تھے جب مریضہ نے ایک دم سے اپنی آنکھیں کھول دیں, پوری آنکھیں کھول کر سب کو ایک ایک بھرپور نظر دیکھا اور کچھ دیر اپنے شوہر کو ایک ٹُک دیکھتی رہیں اور پھر جیسے اٹھنے کی کوشش کی, گردن اور کاندھے واضح انداز میں ہلائے تو بیڈ کے ارد گرد موجود خواتین نے کہا کہ آپ نہ اٹھیں, جس پر انہوں نے کوشش ترک کر دی. بیڈ کا پاس موجود ایک خاتون جنہوں نے سر پر سکارف اور کاندھوں کے ارد گرد چادر لپیٹ رکھی تھی انہیں کہا کہ آپ کلمہ پڑھیں اور انکو کلمے کا پہلا حصہ اپنے پیچھے دہرانے کو کہا مریضہ نے توتلی زبان کے ساتھ مگر نہایت واضح انداز میں پورا کلمہ تین مرتبہ پڑھا اور پھر نڈھال ہو کر سر نیچے ڈال دیا، آنکھیں بند کر لیں اور اگلے بیس سیکنڈز کے اندر سانس کی رفتار مدھم ہوتی ہوئی رُک گئی۔ تین سیکنڈ کے بعد گردن کو ہلکا سا جھٹکا سا لگا اور چہرے کی رنگت ایک دم سفید ہو گئی۔ اسکے کچھ دیر بعد نرسنگ سٹاف نہ اپنی کاروائی مکمل کی اور انکی وفات کا اعلان کر دیا. میں بیڈ کی پائینتی کی جانب کھڑا دیکھ رہا تھا۔
ہمارے کمرے میں پہنچنے سے لے کر اُن کے انتقال تک ساری کاروائی پانچ منٹ سے بھی کم مدت میں مکمل ہو گئی۔ اسی وقت میرے زہن میں یہ خیال آیا کہ ان آخری لمحات میں مریضہ کی حالتِ قومہ سے واپسی, غیر معمولی قوت گویائی اور کلمہ پڑھنے کی توفیق کسی غیر معمولی مدد کے بغیر ممکن نہ تھی۔ کینسر دماغ تک تو پہنچ ہی چکا تھا ہوش میں نہ بھی آتیں تو یہ بعید از قیاس نہ تھا۔ کچھ تو ایسا تھا جس نے آخری لمحات میں اتنی قوت دی کہ اس قدر متاثرہ حالت میں بھی کلمہ پڑھ پائیں۔
میں جب مرحومہ کی زندگی کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو دو پہلو نہایت واضح نظر آتے ہیں، ایک صبر اور دوسرا شُکر۔ پہلے تو انکی شادی لیٹ ہوئی جب شادی ہوگئی تو شوہر امریکہ میں مقیم تھے اور محنت مزدوری کرتے تھے بیگم کو سپانسر کیا تو کم از کم سالانہ آمدنی برقرار رکھنے کی چکر میں جو کہ امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کی شرط تھی کئی سال وطن واپس نہ جا سکے۔ سات سال بعد ویزہ ملا تو عمر ڈھل چکی تھی، دونوں اولاد کی نعمت سے محروم رہ گئے۔ زبان پر پھر بھی حرفِ شکایت نہ آیا. دونوں وفادار رہے اور ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے رہے۔
کچھ عرصے بعد جاوید صاحب کو دل کا عارضہ لاحق ہو گیا. جو کماتے بمشکل گھر کا گزارہ ہوتا باقی ادویات میں خرچ ہوجاتا۔ امریکہ کا مہنگا علاج افورڈ نہ کر سکنے پر کینیڈا کی امیگریشن اپلائی کر دی۔ امیگریشن ملی تو دونوں میاں بیوی کینیڈا منتقل ہو گئے تو کم از کم علاج کی سہولت میسر آ گئی۔ جاوید صاحب کے دل کا ایک بائی پاس، دو عدد اوپن ہارٹ سرجریز اور اولاد کی محرومی بھی مرحومہ کی اعصاب کو نہ توڑ سکی۔ قدرت کو شاید مزید امتحان منظور تھا کہ چند سال کے بعد خاتون کو خود کینسر جیسی انتہائی موذی مرض تشخیص ہو گئی۔ کینسر کی چوتھی سٹیج میں بھی زبان پر شکایت نہ آتی۔ رات رات بھر درد میں مبتلا رہتیں مگر واویلا نہ کرتیں. ملاقات ہوتی تو زیادہ سے زیادہ اتنا کہہ دیتیں کہ ‘تکلیف بہت ہوتی ہے اللہ کے پاس جانا تو ہے بس خدا میری تکلیف کم کر دے’۔ اس معاملے میں اسکے علاوہ کبھی کوئی دوسرا جملہ نہیں سنا گیا۔ انہیں ہمیشہ انتہائی کم گو اور شکر گزار پایا۔ عزیزہ تھیں مگر کبھی کسی سے نہ سنا کہ آنسو بہاتی ہیں یا شکوہ شکایت کرتی ہیں۔ نہیں کبھی بھی نہیں۔ نہ کم آمدنی کے گلے, نہ شوہر سے کوئی شکوہ, نہ اولاد سے محرومی کی شکایت, نہ شدید ترین تکلیف میں واویلا۔
میری ناقص دانست میں شائد یہی وجہ تھی جو اللہ کریم نے آخری لمحات میں ایمان جیسی نعمت سے نواز دیا۔
بے شک بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو ایسی آزمائیشوں میں پورے اترتے ہیں۔
واقعہ ۲
جیسا کہ پہلے اوپر بیان کیا جا چکا یہ واقعہ ایک عزیز دوست نے بیان کیا جب وہ لاہور یو ای ٹی میں انجنئیرنگ کا طالب علم تھا۔ آپ اس کا نام سہیل فرض کر لیں۔
ایک بار یونیورسٹی میں فاطمید فاؤنڈیشن والوں نے خون کے عطیات جمع کرنے کیلئیے کیمپ لگایا، یاد رہے فاطمید فاؤنڈیشن بلڈ سروسز کا ادارہ ہے جو کہ عام لوگوں سے خون کے عطیات جمع کرتا ہے اور ضرورت مندوں کو فراہم کرتا ہے۔ میرے دوست سہیل کا کسی کو بھی خون دینے کا زندگی میں پہلا تجربہ تھا۔ جب خون دینے کیمپ پہنچا فاطمید والوں نے خون لینے کی مخصوص کُرسی جس کا ایک بازو نسبتاً بڑا اور چوڑا ہوتا ہے پر بٹھایا, آستین اوپر کی اور پانی یا جوُس وغیرہ کا پوچھا جو اس نے شکریہ کے ساتھ منع کر دیا۔ جیسے ہی نرس نے بازو میں موٹی سوئی لگائی تو اپنا ہی سُرخ سُرخ تازہ خون نکل کر بیگ میں جمع ہوتا دیکھ کر سہیل کا سر چکرانے لگا اور تقریباٗ بیہوشی کی حالت طاری ہونے لگی۔ یاد رہے ایسا سب کے ساتھ ہونا لازم نہیں، بعض دفعہ کمزور اعصاب کے مالک گھبرا جاتے ہیں
بقول میرے دوست سہیل مجھے پورا یقین ہو گیا کہ میرا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ سہیل بتاتا ہے کہ جب میں پوری کوشش کر کے کلمہ پڑھنے کی کوشش کرتا تو میرے ذہن میں دلیر مہدی کا گانا ‘بولو تارا را بولو تارا را’ آ جاتا۔ باوجود مسلسل کوشش کے میں کلمہ ادا نہ کر سکا اور اتنی دیر میں خون کی بوتل بھر چکی تھی۔ نرس نے سوئی نکالی اور مجھے جُوس کا ڈبہ تھما دیا. میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور گہری سوچ میں ڈوبا آہستہ آہستہ اپنے ڈورم کی طرف چلنے لگا۔
ختم شُد
ان دونوں واقعات سے کیا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے؟ یہ آپ پر منحصر ہے۔
پس تحریر —
اوپر دئ گئی تصویر جو کہ ہسپتال کے فرش پر بیٹھ کر لی گئی، استعمال کرنے پر چائےخانہ انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں