کبھی کبھی والدہ کے ساتھ گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے باجی فوزیہ آیا کرتی تھی۔
دبلی پتلی لامبی باجی فوزیہ میراثی برادری سے تعلق رکھتی تھی، برادری کا یوں کہ باجی فوزیہ پہلی ملاقات میں اپنے تعارف میں خود ہی کہہ دیا کرتی تھی کہ ‘اسیں میراثی ہنے آں’۔
باجی فوزیہ کام کاج میں ہاتھ کم بٹاتی لیکن اس کا کردار ایک عدد جیتے جاگتے ٹی وی چینل کا ہوتا تھا جس پر خبرنامہ، حالاتِ حاضرہ اور کامیڈی کے علاوہ ڈرامے بھی چلتے تھے، باجی فوزیہ آ کر فرش پر بیٹھ جاتی اور امی چلتے پھرتے کام کاج کرتے اسکی باتوں کا جواب دیتی رہتیں۔ باجی فوزیہ مسلسل باتیں کرتی رہتیں، ہم سب بھی یونہی آس پاس چلتے پھرتے انکی باتوں پہ ہنستے رہتےاور ان کو ہنگارہ دیتے رہتے، اور انکا چینل نشریات جاری رکھتا۔ کبھی کبھی موڈ ہوتا تو بیٹھے بیٹھے مٹر چھیل دینا، چاول صاف کر دینا یا کوئی ایسا کام جو فوزیہ باجی اپنی جگہ چھوڑے بغیر مسلسل بولتے کر سکتیں تو بخوشی کر دیا کرتیں۔
باجی فوزیہ کے کردار کا ایک پہلو انکا شوہر اور انکے آٹھ عدد بچے تھے۔ شوہر کسی بیکری پر کام کرتا تھا۔ باجی فوزیہ کے مطابق انکی شوہر سے کم ہی بنتی تھی لیکن بچوں کی تعداد اس کے برعکس کہانی بیان کرتی تھی۔ باجی فوزیہ علاقے کے دیگر گھروں میں آنا جانا رکھتی تھیں، سب ہی گھروں سے حسبِ توفیق کچھ نہ کچھ مل جاتا، آٹھ بچے تھے آٹھ کے آٹھوں نکمے اور تعلیم و تربیت سے مبرا تھے، دن بھر گلیوں میں مٹی سے اٹے کھیلتے رہتے شام کو گھر آ جاتے۔ لیکن اس کے باوجود فوزیہ باجی کا گھر کا نظام کسی نہ کسی طرح چل رہا تھا۔
ایک دن میں اسلام آباد سے واپس آیا تو والدہ کو خاموش، سنجیدہ اور حسبِ معمول فرش پہ بیٹھیں باجی فوزیہ کو روتے پایا۔ مجھے بھی فکر لاحق ہو گئی کہ خدا نخواستہ کوئی فوت تو نہیں ہو گیا؟ پتہ چلا کہ باجی فوزیہ کے چوتھے نمبر والے بیٹے کو کرنٹ لگا ہے اور مرتے مرتے بچا ہے۔ مجھے بھی تشویش ہوئی، تازہ تازہ تنخواہ ملی تھی اسی وقت ہزار روپے کا نوٹ نکال کر دے دیا (اس دور میں ہزار روپے کی بہت قدر ہوا کرتی تھی) باجی فوزیہ نے آنسو پونچھے، پیسے پکڑے اور ڈھیروں دعائیں دیں۔ امی نے بھی شاباش والی نظرسے دیکھا تو لگا کہ کوئی اچھا کام ہی کیا ہے۔
دو تین ہفتوں کے بعد میں پھر اسلام آباد سے آیا تو پتہ چلا کہ باجی فوزیہ کے منجھلے سے بڑے بچے کے مثانے میں پتھری ہے، ڈاکٹر نے آپریشن بتایا ہے، مثانے میں پتھری ہونا بہت دردناک عمل ہے۔ جن کو تجربہ ہو چکا وہ جانتے ہونگے کہ یہ کتنا تکلیف دہ مرض ہے۔ والدہ بہت نرم دل واقع ہوئی ہیں تو انہوں نے اس بار خود ہدایت کی ضرور کچھ کرو، اسی وقت ہزار روپے کا نوٹ نکال کر دے دیا (اس دور میں ہزار روپے کی بہت قدر ہوا کرتی تھی).
مجھے اس دفعہ جاب سے کچھ اضافی چھٹیاں ملی تھیں تو ریلیکس کرنے کا موقع ملا ۔ ایک دن شام کو محلے دار آصف بھائی سے ملاقات ہو گئی، بہت تپاک سے ملے، ان سے میری خوب بنتی تھی باتیں کرنے کھڑے ہوئے تو بات سے بات نکلتی گئی، باتیں کرتے کرتے انہیں جیسے کچھ یاد آیا تو کہنے لگے کہ یار عمران ایک چھوٹا سا کام ہے، اگر ہو سکے تو ضرور کچھ کرنا، عرض کیا آصف بھائی آپ حکم کریں، کہنے لگے وہ میراثیوں کا لڑکا ہے اسکی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے اسکی والدہ ہمارے ہاں آتی ہے بے چارے غریب اور حقدار لوگ ہیں کوئی صدقہ خیرات ہو سکے تو ضرور کرنا۔
میں نے پوچھا کہ آپ کہیں فوزیہ آپا کا ذکر تو نہیں کر رہے؟ کہنے لگے ہاں ہاں وہی۔۔بے چاری بہت رو رہی تھی میری جیب میں دو ہزار ہی تھے تو وہ دے دئیے تھے، میں نے دیکھا کہ دو ہزار کہتے ہوئے آصف بھائی کے چہرے پر ایک رنگ سا آ کر گزر گیا کہ اس دور میں ہزار روپے کی بہت قدر ہوا کرتی تھی۔
میں نے آصف بھائی سے تو کچھ نہ کہا لیکن کچھ سوچنا شروع کر دیا۔
ایک دن کسی کام سے فوزیہ باجی کو گھر سے بلانے گئے تو دیکھا کہ فوزیہ باجی کا وہ لڑکا جس کی ٹانگ کچھ دن پہلے ہی ٹوٹی تھی وہ گلی میں پٹھو گرم کھیل رہا تھا۔ فوزیہ آپا آئیں ان سے پوچھا تو ایک دم گھبرا سی گئیں پھر کھسیانی سی ہو کر کہنے لگیں وہ تو دوسرا لڑکا ہے وہ باپ کے ساتھ ٹانگ دیکھانے کسی حکیم کے پاس گیا ہے, پھر اسکے بعد فوزیہ آپا تمام راستہ مسلسل بولتے ہوئے آئیں۔
مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ فوزیہ نے تقریباً ہر گھر میں ایک آدھ بچے کو کوئی حادثہ کروا رکھا تھا، کسی کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی، کسی کا آپریشن ہونا تھا، کسی کو کرنٹ لگ گیا، کوئی گاڑی کے نیچے آتے آتے بچا۔ کوئی چھت سے گر گیا تو کسی کا جی ویسے ہی زندگی سے اچاٹ ہو چکا تھا اور وہ کہتاتھا کہ میں نے مر جانا ہے۔ ہر گھر کے ساتھ ایک کردار منسلک تھا فوزیہ آپا نے اپنے بچوں ایک غیر محسوس طریقے سے مختلف گھرانوں کو سونپ رکھا تھا اور یہی فوزیہ آپا کا گھر بار چلانے کا ذریعہ تھا۔
برسوں بعد جب پُلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا تھا، اور میں ملک سے باہر آ چکا تھا ایک دن امی سے فون پہ بات ہوئی تو امی نے پوچھا کہ تمھیں فوزیہ یاد ہے نا؟ عرض کیا جی بالکل، کہنے لگیں بے چاری کا آپریشن ہونا ہے سب جاننے والوں سے کچھ نہ کچھ مدد کیلئیے کہہ رہی ہے، تم سے کچھ ہو سکے تو ضرور مدد کرنا، عرض کیا ۔۔۔امی آپکا حکم سر آنکھوں پر، لیکن اس آپریشن کے چند برس اور دس بچوں کے بعد جب فوزیہ کو کوئی اور مرض لاحق ہوگا تو آپ فوزیہ سے ایک بار یہ ضرور پوچھئیے گا کہ فری میڈیکل کوریج اور سوشل اسسٹینس کیلئیے تمھارے تو دس ںچے ہیں، لیکن جن کے دس دس بچے نہیں ہیں وہ کیا کریں؟