میٹرک کے دو سالوں میں عمران سیریز کے ساڑھے پانچ سو ناولز پڑھنے کے باوجود امتیازی نمبروں سے پاس ہو کر فرسٹ ائیر میں پہنچے تو ذہن ہی ذہن میں خود کو عمران اور بلیک زیرو کے بعد سیکرٹ سروس کے سب سے اہم رکن کے طور پر کوالیفائی تصور کرتے تھے۔ ایک دن خیال آیا کہ سیکرٹ ایجنٹ عمران کی طرح ہمارے پاس بھی ایک عدد خفیہ ٹولز بیلٹ ہونی چاہئیے کہ دشمن تنظیموں کا کیا پتہ؟ کہیں بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ لہٰذا ایک عدد این سی سی والی پتلون کی بیلٹ خریدی، سائیکل ورکس کی دوکان سے سائیکل کی پرانی ٹیوب خریدی اور موچی سے بیلٹ پر ٹیوب کاٹ کر یوں سلائی کروا لی کہ بیلٹ میں ایک عدد پیچ کس، چھوٹا پلاس، چاقو، فرسٹ ایڈ باکس، باریک تار، لائیٹر وغیرہ اڑسے جا سکیں۔
انہی دنوں ہمیں لاہور جانا پڑ گیا تو فیصلہ کیا کہ کپڑوں کے نیچے سے سیکرٹ بیلٹ پہن لی جائے کہ لاہور کا کیا پتہ؟ کہیں بھی ضرورت پڑ سکتی ہے، سپیشل سیکرٹ بیلٹ کی مدد سے دشمن کے چنگل سے آزاد ہو گئے تو والد صاحب کا مزید اعتماد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یوں ہم سردیوں کی ایک دھندلکی صبح پِلان کے مطابق سپیشل سیکرٹ بیلٹ پہن کر صبح ساڑھے پانچ بجے والی کوہستان کی بس پر بیٹھ گئے، یہ ہمارا تن تنہا پہلا دورہءِ لاہور تھا۔
بس شاہکوٹ پہنچی تو پنجاب پولیس نے ناکہ لگایا ہوا تھا۔ بس ایک سائیڈ پر روک کر دو کانسٹیبلز سوار ہوئے۔ کانسٹیبلز نے سوار ہوتے ہی گردن اونچی کر کے سواریوں پر ایک طائرانہ نظر دوڑائی اس دوران ایک کانسٹیبل نے چیدہ چیدہ مسافروں کو کھڑے کر کے تلاشی لینا شروع کردی، کہتے ہیں کہ ہر بڑے سائینسدان، مصور، فلاسفر اور دانشور پر ایک ایسا لمحہ آتا ہے جب اس کی فریکوئنسی کائینات کی فریکوئنسی سے یکساں ہو جاتی ہے اور اس پر کائنات کے راز آشکار ہو جاتے ہیں۔ ہمارا وہ لمحہ غالباً آ چکا تھا۔ ہم پر کائنات کے راز آشکار ہو رہے تھے اور ان رازوں میں مجھے پولیس تھانے کے ٹھنڈے فرش پر لیٹ کر پانجہ لگتا ہوا صاف نظر آ رہا تھا۔ ہماری بیلٹ میں ہر وہ اوزار موجود تھا جو ایک عدد چھوٹی موٹی واردات کے دوران درکار ہو سکتے تھے۔
دسمبر کی اس دھندلکی صبح ہمیں اچانک بغلوں کے نیچے پسینہ محسوس ہوا۔ پولیس کانسٹیبل نے نظر دوڑاتے دوڑاتے ہمارے سیٹ کی طرف دیکھا، ہمیں اس وقت اپنی شدید حماقت کا احساس ہو رہا تھا، ہماری شکل پر معصومیت، بے چارگی، نیند، خوف اور حماقت کے احساس کا ملغوبہ سے تھا۔۔’کاکا توں کتھے چلا ایں؟’ کانسٹیبل نے پوچھا۔
بمشکل منمناتے ہوئے عرض کیا۔۔۔’کالج داخلہ کروان چلاں جی’…’شاباش۔۔شاباش۔۔پڑھنا ایں۔۔چنگا!!’ ۔۔کانسٹیبل نے ہمیں نصیحت کی۔
‘اچھا جی’..میں نے بے چارگی سے جواب دیا۔
اسکے بعد کانسٹیبل نے بس کنڈیکٹر سے اپنے چائے پانی کے پچاس روپے وصول کئیے۔ ۔ اور کنڈیکٹر نے بس کی سائیڈ پر زور دار ہاتھ مارتے ہوئے نعرہء مستانہ بلند کیا۔ ۔’جان دیو’..اور ڈرائیور نے بس آگے بڑھا لی تو ہماری جان میں جان آئی۔ چند منٹ کے بعد کنڈیکٹر نئی سواریوں سے کرایا وصولتے وصولتے ہماری سیٹ کے پاس سے گزار تو میں نے مخاطب کر کے پوچھ لیا۔ ۔ ۔’یار اے پولس والیاں نے کرنا کرانا کچھ نئیں ہوندا ایویں پنجاہ دا نوٹ چاڑھ لیندے’.. کنڈیکٹر نے جوابی تبصرے میں ایک موٹی گالی سے پولیس کی ہمشیرہ کئ شان میں قصیدہ گوئی کی۔ اب ذرا بےتکلفی پیدا ہو چکی تھی تو میں اپنے مقصد کی طرف آیا ‘ جان چھٹ گئی کہ ہالے پنجاہ دا اک نوٹ ہور وی دینا پینا؟’ میں جاننا چاہ رہا تھا کہ آگے ایک اور ناکہ بھی ہے یا جان چھٹ چکی؟
‘ہالے شیخوپورے فیر ایناں دی۔۔۔۔۔’ کنڈیکٹر نے پولیس کی ہمشیرہ کو ایک اور قصیدہ پیش کیا۔
میرا مقصد پورا ہو چکا تھا۔ کنڈیکٹر ذرا آگے بڑھ گیا تو میں نے پہلا کام یہ کیا ہاتھ قمیض میں لے جا کر بیلٹ کھولی۔ ۔ اگلے دس منٹ میں آہستہ آہستہ بیلٹ قمیض سے نکالی تو سیٹ پر برابر میں بیٹھے اونگھ رہے مسافر کی آنکھ کھل گئی۔ دیہاتی سا آدمی تھا، شاید اپنی دوکان کیلئیے مال لینے لاہور شاہ عالمی مارکیٹ جا رہا تھا۔ اس دور میں صبح صبح سفر کرنے والے مسافر اکثر چھوٹے تاجر ہی ہوا کرتے تھے۔
‘کاکا اے کیہہ اے’..اس نے اونگھتے ہوئے ایک آنکھ کھول کر پوچھا۔
‘کچھ نئیں چاچا جی۔ ۔ ۔ کالج والیاں نے اسائنمنٹ دتی اے’ ۔۔میں نے کہا
‘اچھا۔۔۔اوہ کیہہ ہوندا؟’ اس نے اونگھتے ہوئے پھر پوچھا
‘کیمسٹری دا کم اے’
اچھا۔۔شاوا پتر۔۔۔پڑھیا کر’
‘اچھا جی’ ۔۔میں نے نہایت سعادت مندی سے جواب دیتے ہوئے بیلٹ اپنے بیگ میں رکھ لی۔
کچھ دیر بعد شیخوپورے کا ناکہ بھی آ گیا، پنجاب پولیس نے ایک بار پھر بس کے مسافروں پر نظر دوڑائی اور اپنے پچاس روپے وصولے۔کنڈیکٹر نے ایک بار بس کی سائیڈ بجا کر ‘جان دیو’ کہا تو میری جان میں جان آئی۔
لاہور پہنچ کر سب سے پہلے کام یہ کیا کہ اپنی سپیشل سیکرٹ بیلٹ کو ایک کوڑا کرکٹ والے ڈمپسٹر میں پھینک کر سیکرٹ سروس کی خیالی نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ اس دن پہلی بار پنجاب پولیس کے فرائض کی بجا آوری میں غفلت برتنے کے فوائد کا احساس ہوا۔
0 Comments
بہت خوب۔ اب جب عمر کا وقتِ عصر ہے، بچپن کی یادیں مسکرانے پر مجبور کر دیتی ہیں۔