• جنوری 20, 2025

فطرت اور کام

آپکا بچہ بہت ذہین ہے، یہ بچہ بہت آگے جائےگا’ وغیرہ ایسے بے شمار دوسرے کلمات تھے جو سنُتے سُنتے عاطف علی جوان ہوا۔ اس میں ایسی کوئی غلط بات بھی نہ تھی، سکول میں اساتذہ کا ہمیشہ سے لاڈلا رہا۔ اچھے حافظے اور تجزیہ کرنے کی غیر معمولی صلاحیت کے باعث کالج اور یونیورسٹی میں بھی نمایاں مقام کا حامل رہا۔ جوان ہوا تو دوستوں میں ہر دلعزیز ٹھہرا۔ اکثر دوست بحث سے کترا جاتے کہ یہ ایسے ایسے نکات نکال لاتا  کہ دوست کھسیانے ہو رہتے۔

عاطف علی کی موجودگی میں شرط لگانے سے گریز کیا جاتا  کہ اکثر جیت اسی کی ہوتی۔ ایک دفعہ دوستوں کے ساتھ کار میں لاہور سے اسلام آباد گیا واپسی پر اسلام آباد سے روانہ ہوئے تو کسی بات پر بحث شروع ہو گئی چار دوست ایک طرف اور یہ اکیلا ایک طرف، تین گھنٹے کے بعد بھیرہ  انٹر چینج پہنچے تو چار دوستوں نے پیسے جمع کر کے عاطف کو ٹریٹ کھلائی کہ چاروں کو عاطف کے مؤقف پر قائل ہونا پڑا جبکہ عاطف کو ٹریٹ کے ساتھ ساتھ دوستانہ گالیاں بھی کھانا پڑیں۔ مطالعے کی عادت اور حوالہ جات کو یاد رکھنے کی صلاحیت اسے دوسروں سے ممتاز کرتی۔

گھر میں والد عبدالمجید صاحب ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے سترھویں گریڈ کے سرکاری افسر تھے جو کہ نچلے درجوں سے سینیارٹی کی بنیاد پر ترقی کرتے کرتے اوپر گئے تھے۔ والد صاحب کے بعد والدہ نفیسہ خاتون ایک عام گھریلو عورت تھیں جن کی اپنی زندگی اولاد کی اعلٰی پرورش اور شوہر کی خدمت میں گزر جایا کرتی ہے۔ اچھے وقتوں کی مڈل پاس تھیں مگر خدا نے اچھی سوچ اور بہتر فیصلہ کرنے کے صلاحیت سے مالا مال کیا تھا یہی وجہ تھی کہ تنگی اور عُسرت کے باوجود کئی سال کی چھوٹی چھوٹی بچتیں کرتے کرتے بالآخر نیا گھر خرید کر اپنے خاندان کو بہ نسبت بہتر علاقے میں لے آنے میں کامیاب ہوئیں۔ نیا گھر ملا تو بچوں میں بھی نیا اعتماد آ گیا۔ آہستہ آہستہ مجید صاحب نے اپنا پرانا 100 سی سی یاماہا موٹرسائیکل بیچ کر اور کچھ زرعی زمین کی آمدن ملا کر ایک پرانی آٹھ سو سی سی کار خرید لی جس سے گھر بھر کی سہولت اور طمانیت میں اضافہ ہوا۔

عبدالمجید صاحب اور نفیسہ خاتون کے دو ہی بچے تھے بڑا عاطف اور چھوٹا کاشف۔ کاشف علی بڑے بھائی عاطف کی طرح غیر معمولی ذہین تو نہ تھا مگر خدا نے شکل و صورت خوب دے رکھی تھی جس کا وہ پورا پورا فائدہ اٹھاتا۔ شوخ لااُبالی اور چنچل نئے سے نئے کپڑوں کا شوقین، خاندان میں شادی کی تقریب ہوتی تو کزنز کا فیورٹ قرار پاتا۔ لڑکیاں مکھیوں کی طرح پیچھا کرتیں۔ جوان ہوا تو نفیسہ خاتون کی بچت کی عادت کا بیڑہ غرق کر ڈالا جس پر وہ ہمیشہ کُڑھتیں رہتیں۔ کالج میں بھی بس پاس ہو جاتا جسے وہ اپنا بڑا کارنامہ گردانتا۔ بچپن میں ایک بار جب سکول کے سالانہ امتحانات ہو رہے تھے گھر واپس آ کر عاطف کے آنسو تھمنے میں نہ آتے تھے جبکہ کاشف چہکتا پھرتا تھا۔ عبدالمجید صاحب کو عاطف کی فکر ہوئی تو دونوں بھائیوں تو بلا کر پوچھا کہ امتحان کیسا ہوا؟ عاطف نے سر جھکا لیا اور آنکھوں سے آنسووں کی ایک لڑی ٹپک پڑی جبکہ کاشف نے بتایا کہ شُکر ہے میرا تو بہت اچھا ہوا ہے۔ مجید صاحب نے دونوں کے سوالات کے جوابات چیک کئیے تو پتہ چلا عاطف جو رو رو کر ہلکان ہو رہا ہے نوے نمبر آئیں گے اور ایک سوال غلط ہونے پر رو رہا ہے جبکہ کاشف نے تین سوالات حل ہی نہیں کئیے جبکہ ایک جواب غلط ہوا اور کل ملا کر آئیں گے ساٹھ نمبر۔ اُس دن مجید صاحب کاشف کے توکل سے کافی متاثر ہوئے اور سنجیدگی سے اسکے مستقبل کے بارے میں سوچتے رہے۔

عاطف کو رابعہ ہمیشہ سے اچھی لگتی تھی، پھوپھو کی بیٹی تھی۔ خوش لباس، خوش اخلاق اور خوش اطوار، کزنز اور بھی تھیں مگر یہ باقیوں سے ہمیشہ مختلف۔ خوش شکل تو تھی ہی مگر جو چیز عاطف کو سب سے زیادہ پسند تھی وہ تھی اسکی غیر معمولی ذہانت۔ شاید ایک رابعہ تھی جو عاطف کو لاجواب کر دیا کرتی۔ رابعہ سے بات کرتے ہوئے اسے ہمیشہ تھوڑا سا محتاط ہونا پڑتا۔ یونیورسٹی سے پیٹرولیم انجنئیرنگ میں گریجوایٹ ہوا تو ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ جاب شروع کئیے تین مہینے ہوئے تو خاندان میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ اب لڑکا کماؤ ہوگیا ہے فہمیدہ کی لڑکی رابعہ سے اسکی شادی کر دی جائے۔ رشتہ ایسا تھا کہ کسی کو اعترض نہ ہوا، لڑکا جوان اور لائق تھا اچھی جاب تھی تو لڑکی بھی نیک طبیعت اور باٹنی میں ایم ایس سی تھی۔ شاید غیر ارادی طور پر خاندان کا ہر فرد اس رشتے کو پہلے سے ہی زہنی طور پر قبول کئیے بیٹھا تھا۔ منگنی کا تکلف نہیں کیا گیا اور چند ہی ہفتوں میں رابعہ بیاہ کر مجید صاحب کے گھرانے میں آ گئی اور عاطف کی شریکِ حیات بن گئی۔ عاطف کو اچھی جاب ملی تو گھر میں کچھ مزید خوشحالی آئی اور صفائی وغیرہ کیلئیے مستقل ملازمہ رکھ لی گئی۔ چنانچہ نفیسہ خاتون اب زیادہ وقت اپنے تخت پوش پر ہی گزارتیں جہاں وہ اپنا جائے نماز سیدھا کرکے نماز پڑھتیں اور وہیں کمر بھی سیدھی کر لیتیں۔ کھانا بھی اب زیادہ تر رابعہ بناتی۔ عاطف اکثر کام پر جانے سے پہلے جھُک کر قرآن شریف پڑھتی ہوئی ماں سے سر پر ہاتھ پھرواتا اور جب نفیسہ خاتون آیات پڑھ کر سر پر پھونک مارتیں تو اسے یوں محسوس ہوتا کہ وہ ایک حفاظتی حصار میں آ گیا ہے۔

زندگی اپنی ڈگر پر چلی جا رہی تھی، گھر میں رونق رہتی کاشف بھی بھابی سے چھیڑ چھاڑ کرتا اور گھر بھر میں قہقہے امڈتے رہتے۔ عاطف کبھی کبھی خود کو خوش قسمت ترین تصور کرتا۔ شادی کے ابھی دو ماہ ہوئے تھے کہ آئل کمپنی نے عاطف کو ٹریننگ کیلئیے باہر بھیجنے کا فیصلہ کیا کُل پانچ ماہ کا دورہ تھا جس میں دو ماہ برطانیہ اور تین ماہ ہالینڈ میں ٹھہرنا تھا۔ گھر بھر میں خوشی کے ساتھ ساتھ ایک انجانی سی افسردگی کی لہر بھی محسوس کی جا سکتی تھی۔ کاشف تو بہت خوش تھا اور بھائی کو آتے جاتے چیزوں کی فرمائش کرتا رہتا جو عاطف کو واپسی پر بالخصوص اسکے لئیے لانا تھیں۔ نفیسہ خاتون کچھ گُم سُم رہنے لگی تھیں اور اکثر نماز کے بعد دعا مانگتے ہوئے دوپٹے سے آنکھیں پونچھتیں دیکھی جاتیں۔ رابعہ کی کیفیت مل جلی تھی۔ وہ زیادہ تر عاطف کا حوصلہ بڑھاتی اور توجہ سے ٹریننگ مکمل کرنے کی تلقین کرتی۔

وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا اور جیسے پلک جھپکنے میں چھ ماہ گزر گئے کہ عاطف ویزہ بڑھا کر ایک مہینہ اضافی طور پر رُکا تھا کیونکہ ٹریننگ کے ساتھ ساتھ وہ مقامی لائبریری میں جو مطالعہ کر رہا تھا اسے مکمل کرنا چاہتا تھا۔ چھے ماہ بعد عاطف واپس آگیا گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی مگر عاطف میں تو جیسے پہلے جیسی کوئی بات ہی نہ رہی تھی۔ بال چھوٹے چھوٹے ترشوا لئیے تھے باتیں کرنے کی بجائے اب زیادہ خاموش بیٹھ کر سُنتا رہتا۔ اکثر وقت ضائع ہونے پر کڑھتا پایا جاتا۔ جن ہمیشہ کےفارغ دوستوں کو کبھی رشک بھری نظروں سے دیکھا کرتا تھا اب انہیں اکثر کہتا پایا جاتا کہ تُم کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟ سب سے بڑی تبدیلی جو محسوس کی گئی وہ یہ تھی کہ اب اکثر صبح کام پر جانے سے پہلے والدہ نفیسہ خاتون سے سر پر ہاتھ پھروانا بھول جاتا اور جب نفیسہ خاتون آیت الکرسی پڑھ کر پھونک مارتیں تو اسکا چہرہ سپاٹ رہتا۔
ایک دن والد سے اس بات پر بحث کرنے لگا کہ ہمیں جو کچھ پڑھایا گیا وہ غلط تھا، ہمیں ادھوری تاریخ بتائی گئی ہے، ہماری درسی کُتب جھوٹ اور اغلاط سے پُر ہیں وغیرہ۔

ایک دن زلزلہ آیا، نفیسہ بیگم اس وقت حیرت زدہ رہ گئیں جب زلزلے کے بعد نفیسہ بیگم کی زبان سے نکلا کہ ضرور اللہ تعالٰی ناراض ہو گیا ہے عاطف پیچھے مُڑ کر بولا امی جان آپ لوگ کیوں ہر بات اللہ کے سر منڈھ دیتے ہیں؟ سادہ سی بات ہے زمین کی پلیٹیں اپنی جگہ تبدیل کرتی ہیں اور زلزلہ آجاتا ہے۔ اور یہ کام خود بخود اپنی فطرت کی مطابق ہوتا ہے۔ نفیسہ بیگم کا چہرہ زرد ہو گیا اور زبان گُنگ۔ کچھ نہ کہہ سکیں مگر بیٹے کا چہرہ دیکھتے ہوئےگہری سوچ میں ڈوب گئیں۔

ایک دن ٹی وی پر امریکہ کےکسی علاقےمیں ہوائی طوفان سے ہونے والی تباہی دکھا رہے تھے کہ رابعہ جو ابھی مغرب پڑھ کر فارغ ہوئی تھی بولی انسان اپنے اعمال پر غور نہیں کرتا ورنہ اللہ کے لئے تو ان کا بندوبست کرنا اتنا آسان ہے کہ صرف ہوا کو اشارہ کردے اور ہم لوگ تنکوں کی طرح بکھر جائیں۔ یہ کہنا تھا کہ عاطف بھڑک اٹھا بولا ‘آخر کیوں آپ لوگ ہر کام کو مابعدالطبیعات ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں؟ ایک واضح بات ہے کہ اس خطے میں درختوں کی کٹائی، انڈسٹریل پالوشن اور دوسرے عوامل کی وجہ سے گرم ہوا جمع ہوتی ہے جو ہوا کے شدید دباؤ کا باعث بنتی ہے اور یہی چیز طوفان کا باعث بنتی ہے اس میں اللہ کا قہر کہاں سے آ گیا؟ ہر کام فطرت کے مطابق خود بخود ہوتا ہے’۔

عبدالمجید صاحب تو لاحول ولا قوہ کہہ کر اٹھ کر چلے گئے نفیسہ خاتون خاموش گہری سوچ میں گُم بیٹے کا چہرہ تکنے لگیں جیسے اندر ہی اندر کوئی بڑا فیصلہ کر رہی ہوں مگر رابعہ نے اس دن فیصلہ کیا کہ آج رات جب سونے کیلئیےجائیں گے تو عاطف سےبات کرےگی۔

رات بیڈ روم میں سونے لگے تو رابعہ نے بات کرنے کیلئیے تمہید باندھی کہ ‘عاطف آپ کو آجکل کیا ہو گیا ہے کیسی باتیں کرنے لگے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے ایمان کا حصہ تو نہیں ہے؟’ ابھی یہاں تک ہی کہہ پائی تھی کہ عاطف اٹھ کر بیٹھ گیا جیسے کسی نے بُھجتا ہوا شعلہ پھر بھڑکا دیا ہو، تیز آواز اور لہجے میں بولا، ‘مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تُم جیسی پڑھی لکھی لڑکی ان دقیانوسی باتوں پر کیسے یقین کر سکتی ہے، اب مجھے یہ لیکچر مت دینا کہ چاند سورج ایک نظام کا حصہ ہیں اور انکو ایک طاقت کنٹرول کر رہی ہے وغیرہ وغیرہ میری بات غور سے سنو سائینس یہ بات ثابت کر چکی ہے کہ اک بگ بینگ ہوا تھا جسکے نتیجے میں یہ سب ستارے اور سیارے ایک گریویٹیشنل فورس کے تحت اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں یہ سب اپنی اپنی فطرت کے مطابق اپنا کام خوبخود انجام دیتے ہیں۔ بس اب چپ کر کے سو جاؤ اور مجھے بھی سونے دو’ اس سے پہلے رابعہ کچھ کہتی عاطف کروٹ بدل کر سونے کیلئیے لیٹ چکا تھا۔ رابعہ نے ہاتھ بڑھا کر بتی بند کردی اور آنکھیں بند کئیے سوچ میں گُم ہوگئی۔

چند دن بعد عاطف شام کو آفس سےگھر پہنچا تو سلام دعا کے بعد بیٹھتے ہی اپنا بیگ کھول کر سب کو ایک پیپر دکھانے لگا۔ آئل کمپنی نے عاطف کو پندرہ ماہ کیلئیے ایک پراجیکٹ پر جنوبی افریقہ بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ نفیسہ بیگم تو خاموشی سے اٹھ کر عشا کی نماز کیلئیے باہر چل دیں جبکہ عبدالمجید صاحب اور کاشف تفصیلات جاننے میں مصروف ہو گئے۔ رابعہ خاموشی سے کسی سوچ میں گُم رہی مگر چند لمحات کے بعد اسکی آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی۔

وقت پر لگا کر اڑتا رہا عاطف نے جنوبی افریقہ پہنچ کر بھی رابطہ رکھا اور باقاعدگی سے فون کرتا۔ آخر وہ دن بھی آن پہنچا جب شام کو عبدالمجید صاحب اور کاشف عاطف کو ائیرپورٹ سے ریسیو کر کے گھر پہنچے عاطف نے جین کی پینٹ اور ٹی شرٹ زیب تن کر رکھی تھی اور ہینڈسم لگ رہا تھا۔ نفیسہ خاتون بھی سادہ مگر صاف ستھرے اور باوقار لباس میں ملبوس تھیں انہون نے بیٹے کا ماتھا چوما اور پیار کیا۔ عاطف کو دیکھ کر رابعہ بھی بہت خوش ہوئی۔ رابعہ آج خاص طور پر تیار ہوئی تھی اس لئیے اور بھی پیاری لگ رہی تھی۔ اسنے ہلکا میک اپ کر کے ایک چادر جسم کے گرد لپیٹ رکھی تھی۔ کھانا وغیرہ کھا کر سب باتیں کرنے لگے تو مجید صاحب نے کہا کہ ‘بیٹا تُم لمبی فلائٹ سے آئےہو آرام کر لو، رابعہ تُم عاطف کو اندر لے جاؤ’۔

کمرے میں پہنچ کر عاطف نے کپڑے وغیرہ بدلے اور بیڈ پر دراز ہو گیا رابعہ نے بھی کپڑے بدلے اور بیڈ پر پاس آ کر اسکے ساتھ لگ کر اسکے کان میں سرگوشی کے انداز میں بولی آپ کے لئے ایک خوشخبری ہے عاطف مسکراہٹ کے ساتھ نہایت رومانٹک انداز میں بولا ‘کہو نا کیا ہے’ رابعہ کی رنگت گلنار ہو گئی ۔ ۔ اسنے چادر ہٹا کر عاطف کا ہاتھ پکڑ کر اپنے بڑھے ہوئے پیٹ سے لگایا اور بولی ‘آپ ڈیڈی بننے والے ہیں’۔ عاطف کا رنگ متغئیر ہو گیا ذہن میں پندرہ ماہ گھر سے دوری، چھوٹا بھائی کاشف، چچا کا لڑکا اور نہ جانے کیا کیا دوڑنے لگا۔ گال اور کانوں کی لوؤیں سُرخ ہو گئیں اور سانس کی رفتار تیز ہوگئی اور بمشکل اتنا کہہ پایا ‘مم مگر۔ ۔ ۔ میں تو ۔ ۔ ۔ پندرہ ماہ ۔ ۔ یعنی کہ تُم’

رابعہ بولی ‘آپ ہی تو کہا کرتے ہیں ‘سب کچھ فطرت کے مطابق خود بخود ہوجاتا ہے، آپ درست کہتے تھے بس یہ بھی ہو گیا’۔ عاطف سخت شاک کی حالت میں تھا۔ ‘مم مم مگر ۔ ۔ وہ تو ۔ ۔’

رابعہ نے چند لمحےانتظار کیا اور عاطف کی حالت غیر پا کر اپنی قمیض میں نیچے کی طرف ہاتھ ڈال کر ایک چھوٹا تکیہ نکالا اور عاطف کے منہ پر دے مارا ۔ ۔ اور کروٹ بدل کر آنکھیں بند کر لیں۔

عاطف چہرہ چھت کی طرف کئیے تیز تیز سانس لیتے ہوئے بے خود سا ہو کر پڑا رہا۔ اُس کے ہاتھ اور پاؤں ابھی تک لرز رہے تھے

[یہ تحریر برادرم شعیب اظہر  ShuaibAzhar@ کے مرکزی خیال کے بغیر وجود میں نہ آ پاتی۔جس کیلیئے ان کا سپاس گزار ہوں]

Read Previous

لال پردہ

Read Next

وہ ایک لمحہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Most Popular