• جنوری 20, 2025

ظفر، وسیلہء سفر

 

کچھ تحریریں اس لئیے ہوتی ہیں کہ وہ لکھی جائیں، اور بس پڑھی جائیں۔ لازم نہیں کہ ہر تحریر میں اخلاق سدھار یا سماج سدھار اسباق پنہاں ہوں۔ سبق اسباق تو ہمارے آس پاس جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں مگر کوئی سیکھنے والا بھی تو ہو، لہذٰا ناسٹیلجیا پر مبنی چند لمحات کو ارد گرد کے ماحول سے فرار حاصل کرنے کو لکھی گئی یہ تحریر ہر قسم کے نفسیاتی، اخلاقی و سماجی اسباق سے مستثنیٰ ہے۔ ہاں، اگر آپ کو کچھ مل جائے تو یہ مکمل طور پر آپکی ذاتی صلاحیت و کمال ہے، اس پر آپ کو پیشگی شاباش۔
ظفر ہمارے نو عمری کے دوست تھے۔ ہماری دوستی ان دنوں ہوئی جب ہم بچپن کی سرحدیں ٹاپ کر نوجوانی کی حد میں قدم رکھنے کو تھے، ان دنوں جب اکثر لڑکے آئینے میں مسیں بھیگتی دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں اور گلے کی آواز اپنے قدرتی سُر کھو کر چند مہینوں کیلئے تال پیٹنے لگتی ہے۔ ہماری دوستی بھی انہی دنوں ہوئی۔ ایک جیسی عمر، ایک جیسے خواب اور ایک جیسی نادانیاں۔
متوسط طبقے سے تعلق کے باعث دونوں کے محدود ذرائع، مگر ہم دونوں ہی سفر کرنے کے شوقین تھے اور سفر میں حتی الوسع ہماری ترجیح ریل کا سفر ہوا کرتی۔ یہ تحریر ہمارے انہی چند ریل کے سفروں کا احاطہ کرتی ہے۔
سفر کرنے کے معاملے میں گھر سے ہمیں صرف ظفر کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت ہوا کرتی تھی کہ اس قدر اعتماد نہیں بنا تھا کہ ہم کہیں اکیلے جا سکتے۔ بقول ہماری والدہ کے کہ وہ ہم سے زیادہ ہوشیار تھا۔ ان دنوں لاہور اور لائلپور کے درمیان ایک نان سٹاپ ٹرین چلا کرتی تھی (شاید اب بھی ہو) یہ ٹرین صبح آٹھ بجے لائلپور سے لاہور کیلئیے روانہ ہوتی اور شام چھ بجے لاہور سے لائلپور کی جانب واپس آتی۔ ہم نے کئی برس تک اس ٹرین پر سفر کیا، شروع میں تو ظفر کے ساتھ کاروباری دوروں پر جانا ہوتا مگر پھر جب ہم نے ‘مزید اعلٰی تعلیم’ کیلئیے لاہور کی جانب رختِ سفر باندھنے کا ارادہ کیا تو تعلیمی ادارے کے انتخاب، اور بعد ازاں تعلیمی عرصہ اور پھر نوکری کے سال۔۔سب اسی ٹرین کے مرہونِ منت رہے۔ چونکہ نان سٹاپ ٹرین تھی تو صبح لائلپور سے نکل کر صرف سانگلہ ہل اور شیخوپورہ سٹیشن پر ذرا رفتار کم کر کے چلتی گاڑی میں مسافروں کو سوار کر لیا جاتا اور اترنے والے بھی اسی مشق کے عادی ہو چکے تھی کہ بہرحال نان سٹاپ ٹرین تھی۔
ان دنوں اس ٹرین کے ایک ٹکٹ چیکر جسے عرف عام میں ٹی ٹی کہا جاتا ہے اپنی سخت طبیعت کے باعث کافی مشہور تھے، ایک دن ہمارا ان سے ٹاکرا ہو گیا، ہوا کچھ یوں کہ ہم لاہور سے واپسی کیلئیے قصد کئیے ہوئے تھے کہ اسٹیشن پر بالکل آخری لمحات میں پہنچ پائے جب گاڑی ہلکا ہلکا رینگنا شروع ہو چکی تھی۔ سوچا کہ ٹکٹ کا وقت نہیں ہے ٹی ٹی صاحب آئیں گے تو کچھ جرمانہ ادا کر کے ٹکٹ ٹرین میں ہی بنوا لیں گے۔ گاڑی لاہور سے باہر نکل کر رفتار پکڑ چکی تھی گاڑی کے پیہوں سے نکلتی کھٹ کھٹ کھٹ کی ایک ردھم میں نکلتی آواز بہت بھلی محسوس ہو رہی تھی کہ اچانک نظر پڑی تو دیکھا کہ ٹی ٹی صاحب ہمارے سامنے کھڑے تھے، سفید پتلون اور سفید کوٹ میں ملبوس، سر پر سفید جالی دار نماز کی ٹوپی اور مُشت بھر سے زائد شرعی داڑھی، چہرے پر متانت اور سنجیدگی کی ایک دبیز لہر، ٹی ٹی صاحب کو اچانک سامنے دیکھ کر ہم گھبرا گئے، منحنی سے آواز میں لجاجت سے عرض کیا کہ جلدی میں ٹکٹ نہیں لے پائے آپ اب بنا دیں ہم پیسے ادا کیئے دیتے ہیں۔ ان دنوں ٹکٹ تیس یا بتیس روپے کا ہوا کرتا تھا۔ ٹی ٹی صاحب نے ایک ہاتھ میں ٹکٹ کی کاپی پکڑے ہمیں بغور دیکھا، عینک درست کی اور گویا ہوئے۔۔’سٹوڈنٹ ہو؟’ عرض کیا ۔۔جی۔۔
ٹی ٹی صاحب نے شہادت کی انگلی سے اپنے کوٹ کی سامنے کی جیب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔۔۔’دس روپے’۔۔ہم دونوں نے دس دس روپے نکال کر ٹی ٹی صاحب کی جیب میں ٹھونس دییے۔ ٹی ٹی صاحب نے بغیر ٹکٹ کاٹے اور ہم سے نظر ملائے بغیر ہمیں تنبیہہ کی کہ ‘آئیندہ خیال رکھنا!!’ اور ٹی ٹی صاحب یہ جا اور وہ جا۔
اسی ٹرین پر ہم نے یہ سبق بھی سیکھا کہ اگر صبح کی ٹرین میں اکانومی کلاس میں برتھ پر جا کر لیٹ جائیں اور یوں لیٹیں کہ آپکا سر راستے کی طرف ہو اور پاؤں کھڑکی کی طرف ہوں تو کوئی آپکو سوتے میں نہیں جگائے گا، اسکے برعکس بار ہا تجربہ ہوا کہ اگر آپ برتھ پر لیٹے ہوئے ہیں اور سر کھڑکی کی طرف ہے جبکہ پاؤں گزرنے والے راستے کی طرف ہیں تو دو تین مسافر آپکو لازم ٹہوکہ دے کر اٹھائیں گے اور متنبہ کریں گے کہ تم آرام سے لیٹے ہوئے ہو اور لوگوں کے پاس بیٹھنے کو سیٹ نہیں۔ اسکے ساتھ ہی ایک دو لوگ برتھ پر آ کر بیٹھ جائیں گے۔ ہم سے یہ عقدہ کبھی حل نہ ہو سکا کہ اگر سر راستے کی طرف ہو تو کیوں نہیں جگاتے؟
ایک دفعہ اسی نان سٹاپ ٹرین پر سفر کرتے ہوئے جب کہ ٹرین میں بہت رش تھا اور ہم بہ مشکل دروازے میں جگہ بنا پائے، ٹرین شہر سے ذرا باہر نکلی اور لوگ کچھ سیٹل ہو گئے تو میں نے ظفر کو مخاطب کرنے کیلئیے گردن گھمائی تو دیکھا کہ مرحوم اداکار ببوبرال میرے بالکل برابر میں کھڑے ہوئے ہیں۔ ان دنوں محفل تھیٹر لاہور میں اداکار سہیل احمد کا سٹیج ڈرامہ ‘ڈبل سواری’ بہت مقبول ہوا تھا اور ریکارڈ توڑ بزنس کر رہا تھا اس ڈرامے میں سہیل احمد کے ساتھ قوی خان، مستانہ اور خالد عباس ڈار تھے اور افتخار ٹھاکر کو سہیل احمد نے پہلی بار لاہور میں متعارف کروایا تھا لیکن اس ڈرامے میں ببو برال نہیں تھے کہ یہ ان دنوں الحمرا تھیٹر میں ہوا کرتے تھے۔ ببوبرال کر دیکھ کر میرے منہ سے لاشعوری طور پر نکل گیا۔۔۔اوہ خیر ڈبل سواری۔۔۔
ببوبرال نہایت شفقت سے بولے۔۔’نئیں او سہیلا اے۔۔تسی غلط سمجھے او’۔ میں شرمندہ ہو گیا اور ان سے اپنے سہو پر معذرت کی۔ ببو برال لائلپور ڈرامے کیلئیے جا رہے تھے اور بوجوہ سواری کا بروقت انتظام نہ ہو سکا تو انہوں نے ٹرین پکڑ لی۔ ببو برال مرحوم کے ساتھ ہر وقت انکے چھ سات دوست اور شاگرد ہوا کرتے تھے تو اس وقت ٹرین میں بھی انکا گروپ انکے ساتھ تھا، راستے میں ہلکی پھلکی گپ شپ ہوئی تو ببو برال مرحوم نے بتایا کہ انکا اصل نام محمد ایوب ہے۔ خدا غریقِ رحمت کرے کیا ہی کمال کے آدمی تھے تھیٹر کی دنیا کا اتنا بڑا سٹار مگر تکبر اور نخرہ نام کو نہ تھا۔
ایک دفعہ جب کہ ہم نوکری پیشہ ہو کر کچھ صاحبِ حیثیت ہو چکے تھے اور نان سٹاپ ٹرین کے لوئیر اے سی کمپارٹمنٹ میں محوِ سفر تھے (اگر آپ ٹرین میں سفر کا تجربہ رکھتے ہیں تو آپ نے شاید نوٹ کیا ہو کہ وطنِ عزیز میں اکانومی اور لوئیر اے سی اور اے سی میں صفائی ستھرائی کے انتظامات اور سفر کرنے والے مسافروں کے طور اطوار، طریقِ گفتگو اور اندازِ سفر میں واضح فرق ہوتا ہے، چاہے مصنوعی طور پر ہی سہی لوئیر اے سی اور اے سی کلاس کے مسافر دورانِ سفر گفتگو ہلکی آواز میں اور اپنے طور اطوار مہذب رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عام طور پر اکانومی کلاس میں ایسے تکلفات نہیں کئیے جاتے) بہرحال، سفر شروع ہونے کے کچھ دیر بعد مجھے اندازہ ہوا کہ مجھ سے اگلی نشستوں پر جو چار اصحاب بیٹھے ہیں وہ بہت بہ آوازِ بلند گفتگو کر رہے ہیں۔ لوئیر اے سی میں سیٹیں چونکہ گھما کر آمنے سامنے کی جا سکتی ہیں تو یہ چاروں افراد ایک دوسرے کے طرف رخ کر کے بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔ دو چار مسافروں نے گردن گھما کر دیکھتے ہوئے ناگواری کا اظہار بھی کیا لیکن وہ چاروں مسافر اپنی دھن میں گاڑی کے پیہوں کے شور کو اپنی آواز سے دبانے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ یہ چاروں فیصل آباد ایجوکیشن بورڈ کے ملازمین ہیں اور چار و ناچار ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی پہلی بار لوئیر اے سی میں سفر کر رہے ہیں۔ اس بات کا اندازہ ان کے لوئیر اے سی کا ٹکٹ مہنگا ہونے کا پون گھنٹے تک گلہ کرنے سے اندازہ ہوا۔ میں اس وقت شدید مائیگرین (سر درد) کا شکار تھا۔ جس میں روشنی اور شور بہت زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ روشنی کا انتظام تو میں نے آنکھوں پر رومال باندھ کر کر لیا مگر شور کا میں کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔ سو بہ دل نخواستہ میں اپنی سیٹ سے اٹھا اور ان اصحاب سے درخواست کی کہ اگر اپنی آواز کچھ کم کر پائیں تو نوازش ہوگی۔ اسکا جواب ان میں سے ایک نے یہ دیا کہ ‘او کیہہ ہو گیا یار۔۔سفر انجوائے کر!!’ میں نے عرض کی کہ میں شدید سر درد کا شکار ہوں اور شور سے مسئلہ ہو رہا ہے تو وہ صاحب مجھے چند گنڈیریاں تھماتے ہوئے بولے۔۔۔’اے لے یار۔۔گنڈیریاں چوُپ۔۔ہنے ٹھیک ہو جائے گا’
میں نے گنڈیریاں چوپنے سے معذرت کی اور اپنی سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا۔ انکی گفتگو کی آواز بہرحال کم نہ ہو سکی۔ اللہ اللہ کر کے فیصل آباد آیا تو یہ لوگ مجھ سے پہلے نکل گئے میں نے فیصلہ کیا کہ میں سب سے آخر میں اتروں گا۔ شاید لاشعوری طور پر میں ان چاروں سے جس قدر فاصلہ رکھنا ممکن ہو سکتا تھا رکھنا چاہتا تھا۔ جب کمپارٹمنٹ خالی ہو گیا تو میں اپنی سیٹ سے اٹھا، اتنے میں کمپارٹمنٹ میں ریلوے کی طرف سے صفائی والا لڑکا بھی داخل ہوا وہ شاید صبح کیلئیے صفائی کر کے تیاری کرنے آیا تھا۔ وہ جب ان چار مسافروں کی سیٹ پر پہنچا تو میں اور وہ دونوں دم بخود رہ گئے، آمنے سامنے کی سرخ شنیل سے بنی خوبصورت سیٹوں کے درمیان تقریباً ڈیڑھ فٹ اونچا مونگ پھلی، کینوں اور گنڈیویوں کے چھلکوں کا ڈھیر تھا، سیٹیں مونگ پھلی کی چھلکوں کی سرخ جھلیوں سے اٹی ہوئی تھیں اور غالباً ان میں سے کوئی گنڈیریاں چوُپ چوُپ کر ہاتھ سیٹیوں سے بھی صاف کرتا رہا تھا۔ میں نے صفائی والے لڑکے سے پوچھا، پہلے بھی کبھی لوئیر اے سی میں یہ حال دیکھا ہے تو لڑکے نےحیرت، افسوس اور غصے کے ملے جلے تاثرات سے نفی میں سر ہلا دیا۔   اصل قابل افسوس بات یہ تھی کہ یہ ہمارے ایک ایجوکیشن بورد کے ملازمین کا حال تھا۔
اسی طرح ایک دفعہ ہم ٹرین کے سفر کیلئیے نکلے، ٹکٹ کی کھڑکی پر گئے تو دیکھا کہ کلرک اپنی سیٹ پر موجود نہیں تھا، کافی دیر انتظار کے بعد کلرک آیا تو ہم نے شکوہ کیا کہ آپ نے کافی انتظار کروایا ہے، کلرک نے بجائے معذرت کرنے کے الٹا بدتمیزی شروع کر دی۔ اسکا لہجہ ہم دونوں کو شدید ناگوار گزرا۔۔ کلرک نے جب ٹکٹ نکال لئیے تو ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں فیصلہ کر لیا۔ ہم دونوں فیصلہ کر چکے تھے کہ کچھ بھی ہو اس آدمی سے ٹکٹ نہیں خریدیں گے اور سفر بغیر ٹکٹ کیا جائے گا۔ سو، ہم بغیر ٹکٹ لئیے کھڑکی سے چل دئیے اور ٹرین میں سوار ہو گئے، ظاہر ہے کہ یہ ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ تھا لیکن اس وقت کلرک کی بدتمیزی نے ذہن و عقل وقتی طور پر ماؤف کر دئیے تھے اورعقل پر غصہ غالب تھا۔ سفر شروع ہو گیا اتفاق سے تمام راستے ٹکٹ چیکر نہیں آیا مگر ایک احساسِ جرم تھا جو ذہن میں جا گزیں تھا۔ گاڑی اب منزلِ مقصود پر پہنچ رہی تھی اور رفتار نہایت آہستہ کر کے اسٹیشن کی حدود میں داخل ہو رہی تھی۔ میں اور ظفر بوگی کے دروازے میں کھڑے تھے کہ میں نے ظفر سے مخاطب ہو کر کہا کہ شکر ہے آج ٹی ٹی نہیں آیا ورنہ پکڑے جاتے(مجھے اس وقت یہ علم نہیں تھا کہ کچھ جرمانہ ادا کر کے ٹکٹ دورانِ سفر بھی بنایا جا سکتا ہے) یہ کہہ کر جیسے ہی میں نے گردن گھمائی تو دیکھا ٹی ٹی ہمارے پیچھے کھڑا ہماری باتیں سن رہا ہے۔ ظفر نے آو دیکھا نا تاؤ اور چلتی ٹرین سے نیچے چھلانگ لگا دی گو کہ رفتار نہایت کم تھی مگر ٹرین حرکت میں تھی۔

میں نے ظفر کو چھلانگ لگاتے دیکھا تو میں نے بھی ٹارزن بننے کی ٹھانی، جیسے ہی میں نے چھلانگ لگائی ٹی ٹی نے ہاتھ بڑھا کر میرا کالر پکڑنے کی کوشش کی اور یوں میں ہوا میں ہی غیر متوازن ہو گیا، جب میں زمین پر گرا تو پاؤں کی بجائے کندھے کے بل گرا اور ساتھ ہی درد کی شدید لہریں۔۔۔میری ہنسلی کی ہڈی فریکچر ہو چکی تھی۔کچھ مسافر یہ تمام واقعہ دیکھ رہے تھے انہوں نے ٹرین کی زنجیر کھینچ دی۔مسافر جلد از جلد نیچے اترے مجھے اٹھا کر دوبارہ بوگی میں سوار کروایا گیا ایک سیٹ خالی کر کے مجھے لیٹایا گیا اور اس دوران چند مسافر میرا معائنہ کرنے کی کوشش کرنے لگے۔  کچھ مسافر ٹی ٹی پر گرم بھی ہو رہے تھے۔  ٹی ٹی خود بھی گھبرایا ہوا تھا لہجہ بھی بدل چکا تھا۔ اسے غالباً احساس ہو رہا تھا کہ صورتحال اس سے کہیں زیادہ خراب ہو سکتی تھی۔ ایمبولینس کال کرنے کی آفر کی گئی لیکن مجھے گھر سے لتر پریڈ ہونے اور آئیندہ سفر پر پابندی کے خدشات تھے لہٰذا میں نے بات کو بڑھانے کی بجائے مٹی پاؤ پالیس اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ جیسے تیسے سفر کر کے گھر واپس پہنچے اور گھر پہ سلپ ہونے کا بہانہ بنا دیا۔ انہوں نے بھی چھوٹی موٹی چوٹ سمجھ کر نظرانداز کر دیا۔ اسکا نقصان یہ ہوا کہ چند دن بعد جب والد صاحب کو میرے بازو کی محدود حرکت کا اندازہ ہوا تو انہوں نے چیک اپ کروانے کا فیصلہ کیا، ایکسرے کروائے تو پتہ چلا کہ ہنسلی کی ہڈی کا فریکچر غلط جگہ پہ مندمل ہونا شروع ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ اسکو اب کچھ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ بازو کی حرکت ہلکی ورزش سے خود بخود بہتر ہو جائے گی۔ ہمارا ہنسلی کی ہڈی میں فریکچر کی وجہ سے ہلکا سا خم آج بھی موجود ہے۔

 

 

Read Previous

ساڑھے بارہ روپے

Read Next

تین بجے والی فلائٹ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Most Popular