آپ نے کبھی عشق کیا ہے؟
میں نے دھوپ میں گھاس پر لیٹے لیٹے سوال کیا، میرا مخاطب شاہد تھا۔
ایف ایس سی فرسٹ ائیر کی بائیالوجی کی پہلی کلاس تھی۔ پروفیسر اسرارالحق صاحب شاید کچھ نرمی کے موڈ میں تھے، کلاس چونکہ لیبارٹری میں ہی ہوا کرتی تھی تو کچھ دفتری مصروفیت کے باعث تمام طلبہ کو لیبارٹری سے باہر باغیچے میں دھوپ سینکنے بھیج دیا، اور یوں اب ہم باغیچے کے ایک چھوٹے سے جنگل نما حصے میں گھاس کی ایک ٹکڑی پر فالسے کی جھاڑیوں کے سائے میں تھے، شاہد بیٹھا ہوا تھا جبکہ میں گھاس پر کتابیں دھرے اوپر سر رکھ کر لیٹا ہوا تھا۔
مجھے خود سمجھ نہیں آیا کہ میں نے یہ سوال کیوں داغ دیا تھا؟ کیا ٹین ایج کے پہلے پہلے عشق کی نسبت میں اپنی دل کو لگی ہوئی باںٹنا چاہ رہا تھا یا واقعی شاہد کا حال دل جاننا چاہ رہا تھا؟ وجہ کچھ بھی ہو شاید عمر کا یہ حصہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ جسم کے اندر کیمیائی مادوں کا جوالہ مکھی اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے اور خاص طور پر لفظ عشق دل کی دھڑکن بلا وجہ ہی بے ترتیب کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
میرا اچانک سوال سن کر شاہد کا گورا چٹا چہرا سرخ ہو گیا۔ یہ میری اور شاہد کی دوستی کی ابتدا تھی۔
شاہد ہر زاوئیے سے مجھ سے کئی گنا زیادہ نیک اور شرع پر سختی سے عمل پیرا تھا۔ داڑھی نہیں رکھی تھی مگر نماز پنج وقتہ کا اس قدر پابند کہ اس کی وجہ سے آہستہ آہستہ میں بھی پنج وقتہ کا عادی ہوتا گیا۔ رمضان میں صلواۃ التسبیح پڑھنا بھی مجھے شاہد نے ہی سکھایا تھا۔ کبھی کوئی اخلاقی برائی نہ دیکھی تھی، آنکھ میں حیا اور زبان میں نرمی تو دل اس سے بھی زیادہ گداز۔ ہمارا دن بھر کا زیادہ تر حصہ اکٹھے گزرتا، بہت ہی گاڑھی چھنتی تھی۔ صبح کالج جانا، کالج سے واپس گھر، پھر شام کو ملنا اور رات دیر تک ایک دوسرے کے ہاں ہی وقت گزارنا۔ اس دوران اگر کچھ وقت مل جانا تو دونوں نے شہر کی سب سے بڑی سرکاری لائیبریری جا کر کتابوں کے سمندر میں غرق ہو جانا، یہ ہمارے پسندیدہ مشاغل تھے۔ ان سب جگہوں پر جانے کیلئے اس دور کے لوئیر مڈل کلاس گھرانوں کے لڑکوں کی طرح ہمارے پاس اپنا اپنا ایک عدد سہراب بائی سائیکل ہوا کرتا تھا۔
ایک دن ایسے ہی سہہ پہر کالج سے واپس ہوئے تو ہم اس مقام پر پہنچے جہاں سے ہمارے گھروں کے راستے الگ ہوتے تھے، میں نے رخصت چاہی اور ساتھ ہی شاہد کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ نہیں یار میں عصر پڑھ کر اب گھر جاؤں گا، والد صاحب نے کچھ کام ذمے لگا رکھا ہے۔ میں نے کہا کہ بہتر۔۔چلو پھر شام میں ملتے ہیں۔
مجھے گھر پہنچ کر کپڑے بدل کر کھانا شروع کییے شاید چند لمحے ہی گزرے ہونگے کہ گھر کی ڈور بیل بجی، میں دروازے پر گیا تو شاہد تھا۔ مجھے لگا کہ چونکہ میں نے آنے کی دعوت دی تھی اور اس نے منع کر دیا تھا شاید اب اسکا ذہن بدل گیا ہے میں نے فوراً کہا کہ ارے اچھا ہوا آ گئے میں کھانا شروع ہی کرنے والا تھا۔ ۔ ۔لیکن ذرا غور کیا تو دیکھا کہ شاہد کے چہرے پر بارہ بجے ہوئے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ سب خیریت ہے نا؟ شاہد نے بتایا کہ عصر کی نماز پڑھنے قریبی مسجد گیا تھا، نماز سے فارغ ہو کر باہر آیا تو سائیکل غائب تھا۔ یہ بڑی فکر مندی کی بات تھی۔
ہم نے فیصلہ کیا کہ تھانے رپورٹ کروانے سے پہلے مناسب ہوگا کہ شاہد کے والد صاحب کو واقعہ گوش گزار کر دیا جائے۔ میں نے شاہد کو گھر چھوڑا، شاہد کے والد صاحب نے اسکو تسلی دی اور کہا کہ اب کیا ہو سکتا ہے؟ جو ہونا تھا ہو گیا، تھانے کچہری کے چکر میں نہیں پڑنا۔ دوسرے دن شاہد کے والد صاحب نے نیا بائی سائیکل دلوا دیا کہ روزانہ کالج تو جانا ہی تھا تو سواری لازماً درکار تھی۔
دو ہفتے گزرے، ہم بھی یہ واقعہ تقریباً بھول چکے تھے۔ ایک دن پھر شاہد نماز کے لئیے مسجد گیا اور یہی واقعہ پھر پیش آ گیا، اس دفعہ مغرب پڑھ کر باہر نکلا تو نیا سائیکل پھر چوری ہو چکا تھا۔ شاہد کافی گھبرایا ہوا تھا، ڈرتے ڈرتے والد صاحب کو بتایا تو وہ خاموش ہو گئے۔ اس بار البتہ نیا سائیکل نہیں ملا بلکہ تلقین کی کہ چھوٹے بھائی کے ساتھ سائیکل شئیر کیا کرو۔
ٹھیک ایک مہینے بعد شاہد لائیبریری میں کوئی کتاب واپس کرنے گیا باہر نکلا تو سائیکل پھر غائب، اس بار تو شاہد کی ٹانگوں میں جان باقی نہ رہی، وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔ کچھ اوسان بحال ہوئے تو وہیں لائیبریری سے مجھے فون کیا۔ میں خیر فوراً وہاں پہنچا اسے ساتھ لیا اور اسکے والد صاحب کو جا کر خبر کی، اس بار شاہد کا سائیکل گم ہونا میں نے اپنے سر لے لیا تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ شاہد کے والد صاحب سخت طبیعت کے آدمی ہیں اب کے سائیکل گم ہونا ثابت ہوا تو شاید گھر سے نکلنے پر بھی پابندی لگا دیں چھ سات ہفتے میں تین سائیکل چوری ہو چکے تھے۔ شاہد کے والدِ محترم مجھ سے بہرحال نرمی سے پیش آئے اور شہر کے امن و امان کی صورتحال کو کوستے رہے۔ اس بار انکا خیال تھا کہ کچھ وقت ملتا ہے تو وہ علاقہ ایس ایچ او سے خود ملیں گے ہمیں بہرحال انہوں نے تھانے جا کر رپورٹ کروانے سے منع کر دیا۔ شاہد کے پاس اب کوئی سائیکل نہیں تھا، بلکہ اب تو ہم دوستوں میں بھی شاہد کا ہلکا پھلکا مذاق اڑنے لگا تھا۔ کچھ دوست تو یہاں تک کہنے لگے کہ یہ سائیکل چوری نہیں ہو رہے بلکہ شاہد نے یوں ہی سائیکل بیچ بیچ کر امیر ہو جانا ہے۔
اتفاق سے تینوں بار جب سائیکل چوری ہوئے تو میں ساتھ نہیں تھا بلکہ گھر پر تھا ورنہ شاید یہ تھیوری با آسانی تیار ہو سکتی تھی کہ ہم دونوں مل کر سائیکل بیچ رہے ہیں اور رقم کسی عشق میں انویسٹ کر رہے ہیں۔ چھ مہینے ہم نے یوں ہی گزارہ کیا، میں شاہد کو اسکے گھر سے پِک کرتا اور یوں ہم باری باری ایک ہی سائیکل چلاتے کالج سے لیکر لائیبریری تک سارا شہر گھومتے۔ چھ سات ماہ یوں ہی گزر گئے، اب ہم ڈاکٹر بننے کے خواب لئیے ایف ایس سی کے سیکنڈ ائیر میں پہنچ چکے تھے، ہم چونکہ خود بھی اپنے آپ کو زیادہ پراعتماد اور میچور محسوس کرتے تھے، ایک دن یونہی بازار سے گزرتے ہوئے ایک دوکان کے باہر بینر پر نظر پڑی، یہ دوکان آسان اقساط پر سائیکل فروخت کرتی تھی، میں نے شاہد کو مشورہ دیا کہ کیوں نہ ہم قسطوں پر سائیکل لے لیں،اس سے کچھ آسانی ہو جائے گی۔ شاہد کو بھی مشورہ پسند آیا، ہم نے دوکاندار سے بات کی، اس نے ایک عدد ضمانت مانگی اور کچھ رقم ایڈوانس طلب کی، میرا پاس کچھ تھوڑی بہت جمع پونجی تھی، میں گھر گیا اور وہ رقم ہم نے بطور ڈاؤن پیمنٹ دے دی، ایک قریبی عزیز کا اسی بازار میں الیکٹرونکس کا سٹور تھا انکی ضمانت حاصل کرنے میں کوئی تردد نہ کرنا پڑا، یوں باآسانی ہم نیا سائیکل حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے، شاہد نے گھر پر بھی یہی بتایا کہ چونکہ عمران سے سائیکل گم ہوا تھا اس لئیے عمران نے نیا سائیکل لے کر دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ میرا اپنا ناکردہ جرم قبول کرنے کے باوجود شاہد کے والدِ محترم نے کبھی بھی مجھ سے نئے سائیکل کا تقاضا نہ کیا تھا۔
زندگی کی ٹرین اپنی پٹڑی پر واپس آ کر رفتار پکڑ چکی تھی۔ روز مرہ کی مصروفیت، پڑھائی، گھر اور والد صاحب کے احکامات و ہدایات کی تکمیل اور پھر پڑھائی ۔ ۔یہ پیہہ یونہی چلتا جا رہا تھا۔ ایف ایس سی کے فائنل امتحانات قریب تھے کہ شاہد شہر کی مرکزی جامع مسجد میں نمازِ مغرب کی ادائیگی کیلئیے گیا۔ رش کے باعث آخری صف میں مسجد کے مرکزی دروازے کے قریب ترین کھڑے ہونے کی جگہ ملی۔ جماعت شروع ہوئے ابھی چند لمحات ہی ہوئے تھے کہ شاہد کے کان میں اپنے سائیکل کے سٹینڈ کے اوپر اٹھائے جانے کی آواز پڑی، لاشعوری طور پر شاید نے نماز مختصر کی اور دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔ اب شاہد سڑک پر ننگے پاوں دوڑ رہا تھا اور دیکھ رہا تھا کہ ایک دبلا پتلا تیس پینتیس سال کا کالا بھجنگ آدمی اسکا سائیکل لے کر بھاگ رہا ہے۔ شاہد ہسٹیریائی انداز میں اسکے پیچھے بھاگا، سائیکل چور نے جب شاہد کو پیچھے بھاگتے دیکھا تو سائیکل پر سوار ہو کر تیز تیز چلانے لگا، شاہد نے دور سے ہی سائیکل چور کو روکنے کیلئیے لوگوں کی طرف دیکھ کر چلانا شروع کر دیا۔ ایسے موقعوں پر ہماری عوام میں رضاکار بہت آ سانی سے مل جاتے ہیں دو تین آدمیوں نے جو کہ سائیکل چور کے سامنے آ رہے تھے انہوں نے ہینڈل پکڑ کر روک لیا، سائیکل چور نے جب صورتحال بگڑتے دیکھی تو سائیکل چھوڑ کر بھاگنے کی کوشش کی تو پبلک کو اسکے چور ہونے کا مکمل یقین ہو گیا۔ شاہد کے سائیکل تک پہنچنے سے پہلے پہلے سائیکل چور کا عوامی علاج شروع ہو چکا تھا۔ خوب مرمت ہو چکی تو مجمعے نے فیصلہ کیا کہ اسکو تھانے دے دیا جائے، اس وقت چھوٹی موٹی چوریوں پر مجمعے میں ڈنڈے مار مار کر یا آگ لگا دینے کا فیشن شروع نہیں ہوا تھا اور انسانیت کی تھوڑی بہت رمق معاشرے میں زندہ ہوا کرتی تھی۔
تھانے پہنچے تو اس دوران شاہد نے تھانے سے ہی مجھے بھی فون کر دیا، میں بھی تھانے پہنچ گیا۔ ایس ایچ او نے صورتحال دیکھی تو اسنے اصل مدعی یعنی شاہد اور سائیکل چور کو اپنے دفتر رکنے کا کہہ کر باقی سب کو جانے کا کہہ دیا۔ شاہد بتاتا ہے کہ جب سب چلے گئے تو ایس ایچ او صاحب نے شاہد سے کوئی سوال کئیے بغیر دو کانسٹیبلز کو سائیکل چور کو لٹا کر پانچ لتر مارنے کا حکم دیا۔ سائیکل چور خود ہی کانپتے کانپتے زمین پر پیٹ کے بل لیٹ گیا، وہ شاید اس مشق سے پہلے بھی گزر چکا تھا۔ ایک کانسٹیبل نے اسکے دونوں ہاتھوں پر اپنے پاؤں رکھ دیئے اور دوسرے نے ٹخنوں سے ٹانگیں پکڑ لیں، جبکہ تیسرا کانسٹیبل ایک تین فٹ سائیز کا بڑے ٹائیر کا اندرونی ربڑ کا حصہ جو کہ بھاری اور کھردرا ہوتا ہے اسکے ایک سرے پر لکڑی کا دستہ لگا ہوا تھا لے آیا۔ یہ پولیس کی زبان میں لتر تھا، لتر پر اردو میں چاک سے ویلکم لکھا ہوا تھا۔
تیسرے کانسٹیبل نے سائیکل چور کی تشریف پر زور دار طریقے سے ضرب لگائی تو سائیکل چور کی چیخیں چھت کو چھونے لگیں، شاہد جو کہ پہلے ہی حواسِ باختہ ہوچکا تھا صورتحال دیکھ کر انکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ شاہد جو کہ اس وقت خود سٹاک ہوم سینڈروم کا شکار ہو چکا تھا، ایس ایچ او سے درخواست کی کہ آپ اسے مت ماریں ویسے سوالات پوچھ لیں، بڑے قد اور بڑے چہرے والے ایس ایچ او نے سرخ آنکھیں نکالتے ہوئے کہا کہ ‘کاکا تو گھر جا۔۔۔سویرے دس بجے آ جائیں’ اورسائیکل چور کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔
دوسرے دن شاہد تھانے پہنچا تو سائیکل چور کے رشتے دار بھی علاقہ کونسلر کو لے آئے تھے، علاقہ کونسلر کی شخصی ضمانت پر سائیکل چور کو جانے دیا گیا لیکن ہدایت کر دی گئی کہ کیونکہ تفتیش جاری ہے لہٰذا سائیکل چور اور شاہد دونوں کو روزانہ دس بجے تھانے آنا ہوگا۔ تیسرے دن سائیکل چور اپنی بیوی کو لے کر شاہد کے گھر پہنچ گیا، دونوں میاں بیوی شاید نشے کے عادی تھے یا غربت وجہ تھی کہ دونوں دبلے پتلے کمزور کالے بھجنگ اور دھنسی ہوئی آنکھوں اور بھوک سے مارے ہوئے لگ رہے تھے، انکی جسمانی حالت دیکھ کر ہی گھر والوں کو ترس آ گیا۔ سائیکل چور اور اسکی بیوی کو کچھ کہا تو نہیں گیا بلکہ گھر سے کچھ خوراک، آٹا اور ایسی دوسری چیزیں دے کر جانے دیا گیا۔ تھانے میں البتہ تفتیش جاری تھی۔ اب ہوتا یہ کہ یہ روزانہ تھانے جاتے، کبھی تھانے دار کسی دوسرے مقدمے میں مصروف ہوتا، کبھی کچہری گیا ہوتا تو کبھی ویسے ہی تھانے میں موجود نہ ہوتا اور یہ اگلے دن کا سوچ کر واپس آ جاتے۔ اب شاہد اور سائیکل چور کی خوب واقفیت ہو چکی تھی۔ اب چونکہ تھانے پہنچنا معمول بن چکا تھا تو کبھی کبھی شاہد خود سائیکل چور کو اس گھر سے پک کر لیتا اور کبھی سائیکل چور ایک عدد سائیکل چلاتا ہوا آ کر شاہد کو گھر سے لے کر ایک ہی سائیکل پر تھانے جاتا۔ ملزم اور مدعی دونوں میں خوب دوستی ہو چکی تھی۔ یونہی سال بھر کی خواری کے بعد اور شاہد کی ذاتی کوششوں اور ایک دو وکلاء کی مدد حاصل کر کے خدا خدا کر کے یہ کیس ختم ہوا۔ شاہد نے سائیکل چور کو معاف کر دیا تھا۔
بہت برسوں بعد میں پاکستان گیا ہوا تھا، ایک دن شاہد کے ساتھ اسکے موٹرسائیکل پر پیچھے بیٹھا بازار سے گزر رہا رھا تھا کہ ایک آواز آئی جیسے کوئی پکار رہا ہو یا ہم سے مخاطب ہو۔۔ چوہدری صاحب۔۔چوہدری صاحب ۔۔۔جناب۔۔۔
شاہد نے بائیک روکی، ہم نے دائیں بائیں دیکھا تو فرمان تھا وہی فرمان ہمارا سائیکل چور۔۔ویسے کا ویسا ہی تھا، دبلا پتلا، کمزور جیسے ہمیشہ سے خوراک کی کمی کا شکار رہا ہو، بس ذرا سر میں سفید بال آ گئے تھے۔
بہت تپاک اور گرمجوشی سے ملا، جیسے کوئی اپنے دوستوں سے برسوں بعد ملا کرتا ہے۔ ہم نے حال چال پوچھا تو کہنے لگا، چوہدری صاحب اب تو بہت سہولت ہو گئی ہے۔۔ اب اپنے شہر میں ہی بڑی جیل بن گئی۔۔اب زیادہ دور نہیں جانا پڑتا۔ پہلے گھر والی کو بڑی تکلیف ہوتی تھی، ملاقات کیلئیے سفر کر کے دوسرے شہر جانا پڑتا تھا، اب جب سے حکومت نے اپنے شہر میں جیل بنائی ہے بڑی سہولت ہو گئی ہے جی۔
اور ہم اسکی سہولت پر مسکرا کر رہ گئے۔