انکا نام شاید سلمٰی ہوگا مگر گاؤں بھر میں سلو کے نام سے جانی جاتی تھیں. گاؤں بھر کی لاڈلی اور ہر گھر کی فرد. چھوٹوں کیلئیے سلو آپا, بڑوں کیلئیے سلو پُتر اور خواتین کیلئیے نی سلو. گاؤں بھر میں کسی کی مہندی کی تقریب ہو, شادی ہو یا مرگ, سلو آپا کے بغیر ادھوری ہوتی۔
میرے ننھیال میں والدہ کی رشتے میں کزن تھیں, شادی نہیں ہوئی تھی مگر وہ فخر سے بتایا کرتیں کہ میرا ابا کہتا ہے ‘میں اپنی سلو پُتر کا ویاہ اپنی برادری میں ہی کسی اچھی جگہ کروں گا, ہم کیوں غیر برادری میں رشتہ کریں؟’ سلو آپا کا ابا اب تک غیر برادری کے درجنوں رشتے منع کر چکا تھا۔
بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں, گھر کے کام کاج, مویشیوں کی دیکھ بھال اور دیگر کاموں میں بچپن سے ہی ایسی جُتیں کہ سکول جانے کی نوبت ہی نہ آ سکی. مگر اس کے باجود سلو آپا کو بات کی تمیز. بڑوں کا لحاظ اور جذبہ خدمت کوُٹ کوُٹ کر بھرا ہوا تھا. انپڑھ ضرور تھیں مگرجاہل نہیں تھیں۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں جب میں والدہ کے ہمراہ انکے ہاں جاتا تو ایک سلو آپا ہی ہوتیں جو نہایت تپاک اور گرمجوشی سے ملتیں. امی کے آنے پر انکی مسرت اور بھاگم دوڑ قابل دید ہوتی وہ ایک طرف لکڑیوں اور اُپلوں کا چولہا جلا کر چائے بناتیں اور دوسری طرف بھاگ بھاگ کر امی کو اپنا جہیز دیکھلا رہی ہوتیں, اس دوران سلو آپا کی دیگر دو چھوٹی بہنیں کچے کمروں میں گھس کر سستا میک اپ کرنےمیں مصروف ہو جاتیں. سلو آپا انہیں کبھی کام کاج کیلئے نہ کہتیں. انکی اماں اکثر بیمار رہتیں اور گھر میں دخل ہونے نہ ہونے کے برابر تھا. میں یہ مشق سالہا سال سے دیکھتا آیا تھا ایسے میں مجھے ایک عجب احساس ہوتا, خاندان کے بغیر ادھورا پن اور اپنا کنبہ بنانے کی فطری خواہش اور رسوم و رواج کے پھندے مجھے بہت بےچین کرتے۔
سلو آپا اپنے ابا سے بہت محبت کرتی تھیں دن بھر اسکے کپڑے دھو کر استری کرنا تین بار کھانا تیار کرنا, تین بارحقہ تازہ کر کے دینا اور رات میں دو بار ابا کا اگالدان خالی کرنا سلو آپا کے معمول کی بات تھی۔
سلو آپا کے دادا دوسری جنگ عظیم میں ہالینڈ کے محاظ پر توپچی رہے تھے جنگ ختم ہوئی تو وہیں رہ گئے محنت مزدوری کر کے پیسہ پس انداز کرتے رہے اور کچھ پیچھے بھیجتےرہے جس سے سلو آپا کے ابا زمین اپنے نام سے خریدتے رہے اور یوں اچھی خاصی جائیداد جمع کر لی. دادا واپس آئے تو بیٹے نے صاف صاف کہہ دیا کہ چھوڑو ابا کہاں اب زمینوں کے چکروں میں پڑو گے ہم آپکی ویسے ہی خدمت کرتے رہیں گے۔
دادا خاموش ہو گیا کہ شریکوں کو تماشا دکھلانا مقصود نہیں تھا. جو کچھ جمع پونجی بچی اسنے اس سے کچھ اور زمین خرید لی اور کاشتکاری کر کےاپنا گھر بار چلانے لگا. دادا دور اندیش آدمی تھا اسنے جب سلو کی حق تلفی ہوتے دیکھی تو ایک دن شہر جا کر وصئیت لکھوا آیا کہ مرنے کے بعد اس کی دس ایکڑ زمین سلو آپا کے نام منتقل ہو جائے. اسکے دو سال بعد دادا مر گیا۔
گاؤں کی خواتین جب کبھی سلو آپا کے ابا سے رشتے کی بات کرتیں تو وہ نہایت اکھڑپن سے جواب دیتا کہ جب اپنی ذات برادری میں ملے گا کر لیں گے ہم کیوں کسی نچلی ذات میں اپنی سونے جیسی لڑکی بیاہیں؟ سلو آپا کا اپنے ابا پر فخر تو کم نہ ہوا مگر سر میں چاندی نے گھر کرنا شروع کر دیا۔
انہی دنوں سلو آپا کے چھوٹے بھائی جاوید کا رشتہ طے ہوا اور چند ہفتوں بعد شادی کر دی گئی. ایک دن گاؤں سے کسی سے معلوم ہوا کہ نئی بھابی تو غیر برادری سے ہے, سلو آپا کے تو جیسے تن بدن میں آگ لگ گئی, ہوا کی مانند تیز تیز چلتی ہوئی ابا کے پاس پہنچیں اور بے چینی سے ہاتھ ملتے ہوئے پوچھا۔۔
‘ابا تجھے پتہ ہے ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے, جیدی کی بیوی عابدہ تو غیر برادری کی ہے, ابا ہم تو لُٹے گئے. ابا اب کیا کریں؟ ‘
ابا نے جواب دیا۔۔
ہے جھلی نہ ہو تو, اوئے جھلئیے عابدہ کے نام پورے آٹھ ایکڑ ہیں پورے آٹھ ایکڑ. ہم نے ذات برادری سر میں مارنی ہے؟ جا تو جا کے بکریوں کو چارہ ڈال میری دھی
اور سلو آپا کے تو جیسے جسم میں جان ہی نہیں, چہرہ سفید اور لرزتے ہونٹوں سے صرف اتنا کہہ پائیں ‘ ابا ہیں ؟ . .پر وہ غیر برادی. . ہیں ابا؟’ اور ابا اٹھ کر باہر نکل گیا۔
بتانے والے بتاتے ہیں کہ اسکے بعد سلو آپا کبھی پہلے جیسی نہ رہیں, سپاٹ چہرے اور بے جان بدن کے ساتھ بس جیسے زندہ ہوں, اپنے آپ میں گُم سُم رہتیں نہ کسی سے کچھ کہتیں اور نہ کسی کے گھر جاتیں. ایک دن کپڑے دھوتے ہوئے دورہ پڑا , بیہوش ہو کر ایسی گریں کہ ناک اور کان سے خون جاری ہوگیا، گھر والوں نے امام مسجد صاحب سے بتھیرے دم کروائے مگر جانبر نہ ہو سکیں, گاؤں میں مشہور تھا کہ نئی آنے والی بھرجائی نے زبردست کالا جادو اور تعویز کروائے ہیں۔ مگر شاید انکا کالا جادو کچھ اور تھا۔
سلو آپا مر گئیں, ابا زندہ رہا. . مجھے اب بھی یقین ہے کہ مرنے سے پہلے انکی آنکھ کھل جاتی تو ایک بار حیرت سے ابا سے ضرور پوچھتیں کہ ‘ابا۔۔ ہیں؟۔