ارشد سے ملاقات عجیب صورتحال میں ہوئی تھی، ہوا کچھ یوں کہ میٹرک کے امتحانات سے فراغت ہوئی تو ہمارے دوست آصف کی گاڑی کو ایک ٹرک والا موڑ کاٹتے ہوئے ازراہ کرم ایکسیڈنٹ کر کے فرار ہو گیا، گاڑی کا اچھا خاصا نقصان ہوا اور باڈی مرمت کا کام نکل آیا۔ شہر کی ڈینٹنگ پینٹنگ کی دوکانوں کا سروے کر کے ایک ڈینٹر کا انتخاب کر کے گاڑی مرمت کیلئیے اسکے حوالے کر دی گئی۔ آصف نے فیصلہ کیا کہ امتحانات سے چونکہ فارغ ہیں اور کوئی کام بھی نہیں لہٰذا گاڑی مرمت کا کام اپنی نگرانی میں کروایا جائے۔ یوں ہر روز صبح آصف، ہمارا دوست نوید اور میں ورکشاپ پہنچ جاتے، سردیوں کی پُر لطف دھوپ میں چائے اور کینوں کھانے کا دور چلتا اور خوب گپ شپ چلتی۔ ارشد مسیح آصف کی گاڑی کا پینٹر تھا۔ ڈینٹنگ کا کام چند دنوں میں مکمل ہوا تو گاڑی پینٹنگ کیلئیے ارشد کے حوالے ہوئی۔ یہیں سے ارشد سے تعلق کا آغاز ہوا۔
ارشد کا تعلق شہر کے نواح میں ایک قریبی گاؤں سے تھا۔ ناٹا قد، ہلکا سا نکلا ہوا پیٹ، کالی بھجنگ رنگت، اور اوپر سے موتیوں کی طرح سپید دمکتے دانت، ارشد ہنستا تو اسکی شخصیت کی سب سے نمایاں چیز اسکے دانت ہوتے۔ ہی ہی ہی ہی کرتے ہوئے ہنستا تو ساتھ میں شرماتے ہوئے لوٹ پوٹ ہو جاتا۔ انتہائی سادہ لوح، معصوم اور بے ضرر انسان۔۔ مرمت کا کام مکمل ہوا تو آصف نے پینٹ سے متعلقہ ایک دو اور کام بھی ارشد کے حوالے کئیے اور انہی کاموں سے متعلق آصف نے ارشد کو اپنے گھر کا پتہ بھی دے دیا۔ یوں ہماری موجودگی میں کئی بار ارشد مسیح آصف کے گھر آ جاتا۔ ہم اسے اپنے ساتھ ہی کھانے میں شریک کر لیتے، بے تکلفی بڑھتی گئی اور بات تاش میں رنگ کھیلنے کی طویل بازیوں تک چلی گئی۔ ارشد رنگ کھیلنے کا ماہر تھا سو ہمارا مستقل رَنگ ٹیم پلئیر بن گیا۔ واقفیت، تعلق میں اور تعلق دوستی میں اور دوستی بے تکلفی میں بدل گئی اور آپس کا ہنسی مذاق اس قدر بڑھا کہ ہمیں احساس ہی نہ ہو سکا کہ کب حلئیے کی مناسبت سے مذاق ہی مذاق ارشد کا نیا نام بھُوتا پڑ گیا جو کہ شاید بھُوتنے کی تخفیف تھی۔ ارشد خود کو بھُوتا کہنے پر بالکل بھی برا نہ مناتا بلکہ خود ہنسنے لگتا ‘ہی ہی ہی ہی ہی تو پھر کیا ہوا؟ تم لوگ میرے دوست ہی ہو، جو مرضی کہہ لو’.. ارشد ہم سے کہتا۔
وقت گزرتا گیا ہم کالج سے فارغ ہوئے اور گھر والوں کے مشورے سے ‘مزید اعلٰی تعلیم’ کیلئیے لاہور جانے کا فیصلہ ہوا تو ہم تینوں دوستوں میں سے پہلے مجھے لاہور کے ایک اچھے ادارے میں داخلہ مل گیا، سو میں لاہور منتقل ہو گیا۔ چند ماہ بعد نوید اور آصف بھی لاہور میرے ساتھ ہی منتقل ہو گئے۔ ہم نے فردوس مارکیٹ گلبرگ کے علاقے میں ایک مناسب سا گھر کرائے پر لے لیا اور یوں تعلیمی سلسلے میں مصروف ہو گئے۔ وقت کی فلم مزید آگے چلتی گئی اور ایک دن لاہور میں گھر کی ڈور بیل بجی، میں نے گیٹ کھولا تو دیکھا سامنے ارشد بھُوتا کھڑا تھا۔ بہت تپاک سے ملا، ہمیں بھی بہت خوشگوار حیرت ہوئی۔ بہت گلے شکوے کئیے کہ تم لوگ کیسے دوست ہو بتایا تک نہیں۔۔کہنے لگا نہ جانے آصف کے گھر کے کتنے چکر لگانے پڑے تب جا کر ایک دن آصف کے والد نے تنگ آ کر ہمارے لاہور والے گھر کا پتہ بتایا۔ انہی دنوں ہمارے ساتھ جہلم سے تعلق رکھنے والا نوید کا ایک دوست منتقل ہو گیا۔ عرفان اچھے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ ہماری بھی بہت جلد اس سے دوستی ہو گئی، طبیعت ملتی جلتی تھی اور یوں عرفان بھی ہمارا مستقل دوست بن گیا
ارشد نے جلد ہی کوٹ لکھپت کے علاقے میں اپنے لئیے آٹو پینٹنگ کا کام ڈھونڈ لیا۔ دن بھر اپنے کام کی سخت محنت مزدوری میں مصروف رہتا اور شام ہوتے ہی ہمارے ہاں آ جاتا اور رات گئے واپس اپنے مکان جہاں اسکی مستقل رہائش تھی، واپس چلا جاتا۔ ہم بھی دن بھر کی تعلیمی سرگرمیوں سے ادھ مووے ہو چکے ہوتے ایسے میں ارشد کا ہمارے ہاں آ جانا غنیمت ہوتا۔ سب کے لئیے چائے بنانا، سگریٹ یا باہر سے کھانا لے کر آنا، برتن دھونا وغیرہ بغیر کہے ارشد اپنے ذمے لے لیتا۔ ۔اور پھر رنگ کی خوب بازی چلتی۔ وقت گزرتا گیا اور احساس ہی نہ ہوا کہ ارشد ہماری زندگیوں میں کتنا اہم ہو چکا تھا۔ رمضان میں ارشد ہمارے ساتھ منتقل ہو جاتا۔ ہمارے لئیے صبح سحری کیلئیے سخت سردی میں باہر جاتا، کھانا لے کر آتا، تیار کر کے میز پر سجا کر ہم ایک ایک کو جگاتا کہ اٹھو سحری کا وقت کم رہ گیا ہے۔ ہم بد نیتی سے چوں چراں کرتے رہتے اور ارشد کو کوسنے دیتے رہتے۔ وہ ہنستا رہتا اور کہتا ہی ہی ہی ہی ہی نہ بھائی اٹھو اللہ ناراض ہو جائیگا۔ نیند کا کیا ہے سحری کر کے پھر سو جانا۔
ارشد کسی بات پر اپ سیٹ ہوتا تو سیدھا ہمارے ہاں آ جاتا، ہمارے پاس آ کر وہ اپنی تمام پریشانی بھول جاتا۔ وہی سفید دانت اور وہی ہنسی ہی ہی ہی ہی۔۔۔ہم اسے ویسے ہی ٹریٹ کرتے جیسے روٹین میں کیا کرتے تھے، ذرا احترام کا اظہار کرنا ہوتا تو بھُوت بھائی کہہ دیتے ورنہ ‘اوئے بھُوتے’ ہی چلتا، اور وہ ‘ہی ہی ہی ہی۔۔پھر کیا ہوا؟ کہہ لو کہہ لو میرا کیا جاتا ہے؟ ہی ہی ہی ہی؟ ۔
ہم لوگ اسکا مان تھے، اسکا غرور تھے۔ ہمارے لئیے ایک دو بار وہ اپنا کام چھوڑ چکا تھا کہ ہم میں سے کسی نے کوئی کام اسکے ذمے لگا رکھا تھا اور مالک نے اسے چھٹی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ لہٰذا وہ مالک کو جواب دے کر آ جاتا اور اسے اس بات کا کبھی پچھتاوا نہیں ہوتا تھا۔ کہا کرتا ‘کام کا کیا ہے؟ اور مل جائے گا، مجھے میرے دوست تو اور نہیں ملیں گے نا’.
ایک بار نوید کو ٹائیفائیڈ نے آ لیا۔ سخت تیز بخار نے کئی مہینے ہلکان کئیے رکھا۔ ٹائیفائیڈ ایک دفعہ آ جائے تو مناسب پرہیز اور علاج کے بغیر تندرست ہونے میں کئی مہینے لگا دیتا ہے۔ جتنا عرصہ نوید کو ٹائیفائیڈ رہا ارشد ہمارے ساتھ منتقل ہو رہا۔ ایک ماں کی طرح نوید کا خیال رکھتا، اسے وقت پر دوا دینا، اسکے پاؤں دبانا، اسکا پرہیزی کھانا تیار کرنا، رات کو نوید سو رہا ہوتا تو وہ بستر پر اسکے سرہانے بیٹھ کر رات رات بھر اپنی مذہبی دعائیں مانگتا رہتا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ عرفان جہلم سے واپس لاہور پہنچا تھا، کالج کا نیا سمسٹر شروع ہونا تھا، اگلے دن فیس جمع کروانے کی آخری تاریخ تھی کہ عرفان نے اچانک اعلان کر دیا کہ اسکی کالج کی فیس جو کہ اچھی خاصی رقم تھی، گُم ہو چکی ہے۔ اتفاق سے اس دن میں کالج سے دیر سے واپس لوٹا تھا، آصف اپنے ماموں کے ہاں گیا ہوا تھا اور نوید اردو بازار سے کچھ کتابیں خریدنے کیلئیے گیا ہوا تھا اور ہم تینوں ہی تقریباً اکٹھے ہی واپس پہنچے تھے ہماری غیر موجودگی میں جب عرفان پہنچا تھا تو اس وقت صرف ارشد گھر پر تھا۔ قدرتی طور پر سب کی نظریں ارشد کی طرف گئیں۔ ارشد نے ہزار قسمیں کھائیں، وہ ہر طرح سے تلاشی دینے کیلئیے تیار تھا اسکا کالا بجھنگ رنگ کالا زرد ہو چکا تھا لیکن وہ اس بات کی وضاحت دینے سے قاصر تھا کہ عرفان کے پیسے ہم سب کی غیر موجودگی میں اور کون نکال سکتا ہے؟ اس دن کے بعد ہم میں سے کسی نے ارشد سے بات نہیں کی۔
عرفان جہلم واپس گیا اور جا کر دوبارہ فیس لے کر آیا۔ یہ اسکے ساتھ ایک طرح سے زیادتی تھی جسکا ہم سب کو شدت سے احساس تھا۔ بھاری رقم تھی لہٰذا اسکے گھر والوں نے بھی آ کر ہم سے تفتیش کی، لیکن قدرتی طور پر میرے، نوید یا آصف میں سے کوئی بھی اس دن گھر پہ نہ تھا لہٰذا کسی طور الزام ہم پر نہیں آ سکتا تھا، مگر عرفان کے گھر والوں کے سامنے کسی انجانی وجہ سے نہ ہم نے ارشد کا ذکر کیا اور نہ ہی عرفان نے۔ سو، گم شدہ رقم کا کبھی سراغ نہ لگ سکا۔ ارشد ہمارے ہاں پھر بھی آتا رہا۔۔وہ آتا اور ہم دروازہ کھول دیتے مگر اس سے کوئی بات نہ کرتا۔ وہ ایک طرف مجرموں کی طرح ایک طرف کمرے کا دروازہ پکڑ کر کھڑا رہتا اور ہم اسے نظر انداز کئیے رکھتے اور پھر وہ واپس چلا جاتا۔ کچھ عرصہ بعد اس نے ہمارے ہاں آنا چھوڑ دیا، اور ہم بھی اپنی روٹین میں مصروف ہو گئے۔ ایک دفعہ کسی سے بس اتنا پتہ چلا کہ ارشد اب پیروں فقیروں سے تعویذ کرواتا پھر رہا ہے کہ میرے دوست مجھ سے مان جائیں۔ ۔ لیکن اس کا جرم شاید زیادہ بڑا تھا۔ اسنے ہمارے اعتماد کو دھوکا دیا تھا۔ کانچ کی طرح اعتماد ایک بار ٹوٹ جائے تو کوئی طاقت دوبارہ نہیں جوڑ سکتی۔
ہم بھی اپنی زندگیوں میں مصروف ہو گئے، بیرون ملک نوکریاں مل گئیں، شادیاں ہو گئیں اور وقت پر لگا کر اڑتا رہا۔ چند برسوں بعد میں وطن واپس آیا تو لاہور میں ایک پرانے دوست سے ملاقات ہوئی اسنے ارشد کا ذکر کیا کہ یار یاد ہے تم لوگوں کے ہاں ایک ارشد بھُوتا ہوا کرتا تھا وہ مجھے ملا تھا۔ اتفاق سے ارشد اپنا نمبر اسکے پاس چھوڑ گیا تھا۔ میں نے فوراً ہی ارشد کو کال ملا دی، ارشد کو جب میں نے اپنا بتایا تو ہمیشہ کی طرح بہت خوش ہوا، فوراً ہی ملنے کیلئیے آ پہنچا۔ حیران کن طور پر مجھے اپنے دل میں ارشد کیلئیے کوئی خاص کدورت محسوس نہیں ہوئی، وہ بھی بالکل ویسے کا ویسے ہی تھا۔ ذرا سے وزن بڑھا لیا تھا۔۔بہت تپاک سے ملا ۔ ۔کہنے لگا مجھے پکی ٹھٹھی والے باباجی نے کہا تھا کہ ہو ہی نہیں سکتا کہ تمھارے دوست تمھیں نہ ملیں بس تم ہر جمعرات چراغ جلایا کرو اور وہ جانے کتنے برسوں سے چراغ جلا رہا تھا۔ میں نے کہا چھوڑو پرانی باتیں۔۔کہنے لگا اب میں اومان میں ہوتا ہوں وہاں بھی آٹو پینٹنگ کا کام کرتا ہوں اچھے پیسے مل جاتے ہیں۔ شادی ہو گئی تھی، اب تین بچے ہیں۔ کہنے لگا کہ میں نے اپنے سسرال کو کہہ رکھا ہے کہ جب تک میں مستقل طور پر واپس نہیں آ جاتا، میری بیوی آپ کے ساتھ ہی رہے گی میں تمام اخراجات اٹھاؤں گا۔ بس مجھے میرے بچے تعلیم یافتہ چاہئیں۔ میرے بچوں کو پڑھائیں میں نے اپنے بچوں کو اپنے دوستوں جیسا بنانا ہے۔ اسکے سسرال اسکے بچوں کر نہایت توجہ سے اچھے سکول میں پڑھا رہے تھے۔ وہ ہمیں اب بھی نہ بھلا پایا تھا۔ مجھے یہ جان کر عجب سے احساس ہوا کہ شاید اسکی زندگی کا اثاثہ ہم لوگ ہی تھے۔ اس دن اس نے کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا، میں چاہتا تھا کہ وہ کچھ کہے مگر نہیں۔۔وہ بس دوبارہ ملنے کی خوشی میں سرشار تھا۔
میں لاہور میں ہی تھا کہ چند دنوں بعد ایک دن اچانک فون کی بیل بجی، کال اٹینڈ کی تو عرفان تھا۔ بہت خوش ہوا، آجکل پنڈی میں کاروبار سیٹ کر رکھا تھا، کافی دیر پرانی یادیں تازہ کرتے رہے، بتانے لگا کہ شادی ہو گئی تھی اب دو بچے ہیں۔ مجھے ایک دم سے ایک خیال آیا۔۔میں نے کہا عرفان یار ایک بات تو بتا۔۔شادی کیا اسی نیک دل خاتون سے ہوئی جنکے لئیے فیس کے پیسوں سے جیولری خریدی تھی۔ ہنس کر کہنے لگا۔۔سمجھا کرو، اسکے گھر والوں کو منانے کیلئیے اتنا تو کرنا ہی پڑنا تھا۔
عرفان کا یہ کہنا تھا کہ مجھے ایک دم سے پسینہ آ گیا، اسکے بعد مجھے عرفان کی کوئی بات سمجھ نہیں آئی اور میں نے ہاں ہوں کر کے فون بند کر دیا۔ میری نظروں کے سامنے ارشد کا زرد چہرہ، اسکا روز سفر کر کے اس آس میں ہمارے ہاں آنا کہ شاید ہم لوگ اس سے آج بات کر لیں، اسکا دروازہ پکڑ کر کھڑے رہنا اور پھر بوجھل دل سے واپس جانا۔۔ لہرانے لگا۔ارشد بغیر احتجاج کیئے انصاف ملنے کی آس میں جانے کتنے برس سے چراغ جلا رہا تھا۔
مجھے یوں لگا جیسے کائنات کا سب سے بڑا گناہ سرزد ہو چکا ہے۔ یوں لگا کہ درحقیقت علم سے سرشار آدمی ارشد تھا، میری نظروں کے سامنے ارشد کا اسکے دانتوں کی طرح اجلا اور دمکتا ہوا سراپاء لہرا رہا تھا۔ ۔ مگر اس وقت مجھے خود سے اور اپنے یاروں سے ایک عجیب سی گِھن سی محسوس ہوئی۔۔
0 Comments
ارشد سے معافی مانگنے کا موقع ملا؟
چند برس بعد ملا، اومان چلا گیا تھا، بچے پاکستان میں ہی تھے۔ مل کر بہت خوش ہوا۔۔ویسے کا ویسا ہی تھا۔۔ کہنے لگا میں نے اپنی بیگم سے کہا ہے کہ میرے بچوں کو میرے دوستوں جیسا بنانا ہے۔
ہم نے ایک اچھے ریسٹورنٹ جا کر کھانا کھایا۔۔۔پھر ہم دیر تک پرانی یادیں تازہ کرتے رہے۔۔