• جنوری 20, 2025

دوسرا بازو

جوان !! اٹینشن !! – کیپٹن فلپ کی پاٹ دار آواز بحری جہاز کے عرشے پر گونجی۔ یہ آواز جوانوں کو متوجہ کرنے کیلئے تھی اور یہ سفر ایمبیسڈر کمپنی سلطنتِ برطانیہ کے اس بحری جہاز کا تھا جو کلکتہ سے چٹاگانگ کے لئے روانہ ہوا تھا۔ ساٹھ سپاہئیوں اور نچلے درجے کے نان کمیشنڈ افسران پر مشتمل یہ بحری سفر کمک کے طور پر بھیجے گئے بہت سے دوسرے بحری جہازوں اور درمیانے درجے کی کشتیوں میں سے ایک تھا جو ہفتے میں دو بار کی بنیاد پر بھیجے جاتے تھے۔ انیس سو سولہ میں انگریز فوج کو مشرقی صوبے بنگال میں مزاحمت کا سامنا تھا۔

جہاز کے دو انجنوں کے شور میں کیپٹن فلپ کی آواز سنتے ہی جہاز کی دیواروں کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے گورکھے اور پنجابی جوان سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔

‘صوبیدار میجر شافقاٹ خان صاب جوانوں سے ارڈو میں باٹ کرے گا، کسی کا آواز نہ آئے’ – کیپٹن فلپ نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں بیٹھنے سے پہلے اسی پاٹ دار لہجے میں تنبیہہ کرنا ضروری سمجھا۔ فوج میں یہ معمول کی بات تھی۔ ہر بات سختی سے اور زوردار لہجے میں کہی جاتی زیادہ تر افسران اور جوانوں کے لہجے بھی ایک جیسے ہو چکے تھے۔

کیپٹن صاحب کے بیٹھتے ہی جہاز کے اگلے حصے سے صوبیدار میجر شفقات صاحب کھڑے ہوئے۔

‘جوانوں!! جو مجھے نہیں جانتا وہ جان لے اور جو پہلے سے جانتا ہے وہ اور اچھی طرح جان لے۔ میں ڈسپلن کے معاملے میں بڑا سخت آدمی ہوں۔ جس ظالم کے بچے میں حوصلہ نہیں ہے وہ میری کمپنی میں آنے کی غلطی نہ کرے‘

صوبیدار میجر صاحب چھ فٹ سے نکلتے ہوئے قد، بھاری مونچھوں اور سرخ و سفید رنگت مگر کرخت چہرے کے مالک تھے۔ میرے ساتھ بیٹھے سپاہی کرم سنگھ نے زیر لب سرگوشی کی ‘سنا ہے کوہاٹ کے ہیں بڑے سخت آدمی ہیں’

صوبیدار میجر صاحب کی بات جاری تھی۔ ‘ میں نے چھ سال پہلے سنہ انیس سو دس میں میجر گرانٹ صاحب کے ساتھ ڈیوٹی کی ہے جس رات انکی کیژوولٹی ہوئی انہوں نے خاص طور پر مجھ سے بیڑی لے کر پی تھی۔ کیا شاندار آدمی تھا میجر گرانٹ، ہم نے انکی قیادت میں جنگ لڑی ہوئی ہے’ یہ کہتے ہوئے صوبیدار میجر کی گردن فخر اور عقیدت سے تن سی گئی۔ آنکھیں روشن اور چہرے کی رنگت مزید سرخ ہو گئی۔

اب سے تقریباً دو دن بعد جہاز چٹاگانگ پہنچے گا۔ وہاں بندرگاہ پر آپکی وصولی اور نفری کی گنتی ہو گی۔ضروری کاروائی مکمل کرنے کے بعد کھانا بھی وہیں دیا جائے گا پھر وہاں سے آگے ڈپلوئیمنٹ ہوگی۔ آپ کو بلا اجازت باہر اکیلے جانے، گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کسی نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی تو میں اسکی تشریف تندور کی طرح لال کر دوں گا۔’ یہ بات مجھے بعد میں پتہ چلی کہ یہ صوبیدار میجر صاحب کی ایک مخصوص گالی تھی جو وہ شدید غصے میں دھمکی کے طور پر یا کسی جوان پر شفقت فرماتے ہوئے مذاق میں بھی دے دیتے۔ باقی کی ہدایات روٹین کے مطابق تھیں۔

میں خود پنجاب کا ایک عام دیہاتی نوجوان تھا۔ وطن کیلئیے لڑنے کا جذبہ تھا یا غربت کا عالم تھا مگر جس علاقے میں بھی بھرتیاں کھلتیں نوجوان جوق در جوق بھرتی ہونے کیلئے پہنچ جاتے۔ دو سال کی بنیادی تربیت اور مشقوں میں حصہ لینے کے بعد محاذ پر یہ میری پہلی تعینیاتی تھی۔ ایک ہلکا سا انجانے کا خوف مگر اس سے کہیں زیادہ وطن کیلئیے لڑنے کا جذبہ دل میں گھر کئیے ہوئے تھا۔

سلطنتِ برطانیہ کا جھنڈا لگا ہوا بحری جہاز دو دن بعد بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا تو چٹاگانگ میں بنیادی کاروائی اور کھانا کھانے کے بعد ہماری تعیناتی سلہٹ کے علاقے میں کر دی گئی اور ایک پرواز ہمیں لے کر سلہٹ روانہ ہو گئی جو تقریباً دو گھنٹے بھر کی ہوگی۔ وہاں ہماری وصولی کے بعد تعیناتی پنج پورہ اور مکواڑہ کے دیہاتی علاقے میں کر دی گئی جہاں ہم فوجی ٹرکوں میں سوار ہو کر اپنے کمپنی ہیڈکوارٹر پہنچ کر کیپٹن رابرٹ بیکر کو رپورٹ کرنا تھا۔ یہ علاقے سلہٹ شہر سے ہٹ کر جنوب میں قریباً بیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔ ہم بیس بیس سپاہیوں کی ٹکڑیوں میں تین فوجی ٹرکوں میں سوار ہو کر کمپنی ہیڈ کوارٹر کی جانب چل پڑے۔ ہمارے ہمراہ فوجی جیپ میں میڈیکل کور کے دو پیرامیڈکس بھی تھے جو کہ راستوں سے بھی خوب واقف تھے۔ دیہاتی علاقوں سے گزرتے ہوئے ماحول عجیب سا محسوس ہوا۔ دیہاتیوں کے چہروں پر تناؤ اور ایک خاص قسم کی بیزاری اور ناپسندیدگی واضح تھی۔ انگریزی فوجی ٹرک گزرتے اور ننگے دھڑنگے کالے کالےچھوٹے بچے دیکھ کر ہاتھ ہلاتے تو انکی مائیں فوراً بچوں کو گود میں اٹھا کر جھونپڑیوں کے اندر لے جاتیں۔ اگست کے مہینے میں فضا میں نمی کی مقدار زیادہ ہونے کے باعث مسلسل گھٹن کا احساس تھا اکثر مرد دبلے دبلے اور ناٹے قد کے تھے اور قمیض کے بغیر صرف تہمبد نما چیز میں یا زیادہ سے زیادہ ساتھ میں ایک عدد بنیان میں ملبوس پھرتےدیکھے۔ بہرحال ماحول میں کشیدگی واضح تھی۔ اکثر علاقوں میں سڑکوں اور بجلی کا نام و نشان نہ تھا۔ میں خود دیہاتی پس منظر سے تعلق رکھتا تھا لہٰذا میں زمین دیکھ کر زرخیزی کی دل ہی دل میں تعریف کئیے بنا نہ رہ سکا۔ تا حدِ نگاہ چاول اور پٹ سن کے سر سبز کھیت نظر آتے۔ کہیں کہیں کیلے، بانس، آم یا جیک فروٹ کے درختوں کے جھنڈ بھی نظر آ جاتے۔ ہرے بھرے کھیتوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے بحری رستوں پر چلتی چھوٹی چھوٹی بیڑیاں بھلی لگتیں۔ بارشوں اور گرم مرطوب آب و ہوا نے دیہاتی راستوں کو بُھر بھرا اور دلدلی سا کر دیا تھا۔ سلہٹ ہوائی اڈے پر ایک بار پھر ہمیں تنبیہہ کی گئی کہ بغیر اجازت بالخصوص تنہا باہر نہ نکلیں اور اگر نکلنا ناگزیر ہو تو وردی پہن کر نہ جائیں۔

ان علاقوں میں باغی عناصر کے ایجنٹس مقامی نوجوانوں کو ریکروٹ کرتے بارڈر پار نیپال یا برما لے جاتے اور تربیت اور پیسہ دے کر واپس بھیجتے جو کہ واپس آ کر چھاپہ مار گوریلا کاروائیاں کرتے۔ ہمارا کام مقامی آبادیوں میں اس قسم کی کاروائیوں کا سدباب کرنا تھا۔ کھاکھڑا نام کی گاؤں سے گزرتے ہوئے پہلا حیرت کا جھٹکا اس وقت لگا جب ہم نے دیکھا کہ دور سے فوجی گاڑیاں آتے دیکھ کر کچھ دیہاتی بیلوں کی جوڑی چھوڑ کر دوڑ کر فصلوں میں جا چھپے ہیں۔ قریب گئے تو دیکھ کر معدہ متلا سا گیا کہ دیہاتی بیلوں کی جوڑی کے پیچھے ایک گورے فوجی جوان کی آدھ جلی لاش باندھ کر گھسیٹتے آ رہے تھے۔ میرے جیسے ایک دو اور سپاہی بھی تھے جنہیں پہلی بار یہ دیکھ کر شدید ابکائی محسوس ہوئی۔ صوبیدار میجر شفقات نے میڈیکل کور کے دونوں جوان جنہیں عرف عام میں ڈاکٹر ہی کہا جاتا تھا، انہیں جلے ہوئے جوان جسکے رینک کا اندازہ نہ ہو سکا اسکی لاش بیلوں کی جوڑی کے پیچھے سے اتار کر سنبھالنے کو کہا۔ انہوں نے اپنے سامان سے دو چادریں نکال کر گورے فوجی جوان کی لاش ان میں لپیٹی اور ایک ٹرک کے پیچھے رکھ دی۔ اس کے بعد باقی کا سفر قریباً خاموشی سے طے ہوا کہ سب کو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہو چکا تھا۔

کمپنی ہیڈ کوارٹر پہنچ کر کیپٹن رابرٹ کو رپورٹ کیا۔ کیپٹن رابرٹ نے بھی تقریباً ویسی ہی ہدایات دیں جیسی ہمیں چٹاگانگ کی بندرگاہ اور سلہٹ ائیرپورٹس پر دی گئی تھیں۔ ہر وقت چوکنے اور مسلح رہنے، وردی پہن کر اکیلے باہر نکلنے کی ممانعت اور عام لوگوں سے گھلنے ملنے سے گریز پر مشتمل تھیں۔ مجھے کچھ حیرت سے محسوس ہوئی کہ یہ تو میرے اپنے لوگ تھے اور یہ میرا اپنا ملک تھا جبکہ میں انکا محافظ تھا مجھے یہاں ایسی احتیاطی تدابیر کیونکر اختیار کرنا چاہئیے؟ کہ ہم اپنے لوگوں سے لڑ رہے تھے یا چھپے ہوئے دشمن سے؟ بہرحال فوج میں حکم کا مطلب حکم ہوتا ہے اور سوال کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

ایک دن آرام کے بعد اگلے دن حکم ملا کہ بیس جوانوں کی ٹکڑی لے کر کیپٹن رابرٹ اور صوبیدار میجر شفقات کے قیادت میں پیٹرولنگ کی جائے گی اس دوران مشکوک افراد اور مقامات کی تلاشی بھی لی جائے گی۔ دو ٹرکوں میں جوان اپنے اسلحے اور سگنلز والا جوان اپنے ریڈیو کے ساتھ سوار ہو گئے اور جبکہ جیپ میں کیپٹن رابرٹ اور صوبیدار میجر شفقات سوار اور نقشے پھیلائے بیٹھے تھے۔ مختلف دیہات اور چھوٹی چھوٹی آبادیوں سے گزرتے اور تلاشیاں لیتے ہم ایک ایسی جگہ سے گزرے جو نسبتاً آبادی سے دور تھی اور کیلے اور بانس کے درختوں کے ایک جھنڈ کے درمیان گارے ایک جھونپڑی جسکی چھت بانسوں سے بنی تھی پر مشتمل تھی۔ کیپٹن رابرٹ نے جیپ ادھر موڑنے کا اشارہ کیا۔ قریب پہنچتے ہی جوانوں نے ٹرکوں سے چھلانگیں لگا کر کسی انجانے خطرے سے نمٹنے کیلئیے پوزیشنیں سنبھال لیں۔ ٹرک رکنے کی آواز سن کر جھونپڑی سے ایک دبلا پتلا سے بڈھا برآمد ہوا جو بمشکل چل پا رہا تھا اسکی عمر اسی سال کے قریب ہوگی۔ دبلا پتلا کالا بجھنگ بڈھا جسکی بڑھی سفید شیو اور بڑی بڑی پیلی آنکھیں اسے مزید ڈراونا سا بنا رہی تھیں۔ بڈھے کے پیچھے ایک بوڑھی عورت بھی آہستہ آہستہ چلتی باہر آ گئی جو شاید بڈھے کی بیوی تھی۔ کیپٹن رابرٹ نے جیسے دھاڑتے ہوئے پوچھا

اے بڈھے یہاں پر ٹُو رہٹا ہے؟’

بڈھے نے سہمے سہمے بڑی بڑی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا

‘کام کیا کرٹے ہو؟’

بڈھے نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں بنگالی ملا کر جواب دیا ‘صاحب موسلی پکرتا تھا پر اب ناہیں پکرتا۔ اب امارو پترا پکرو ہے’ (صاحب مچھلی پکڑتا تھا مگر اب نہیں پکڑتا اب میرا بیٹا پکڑتا ہے)

سنا ہے یہاں برما سے ڈارو لا کر چھپاٹے ہو؟ کوئی سوگاٹ(سوغات) ہے؟ کیپٹن رابرٹ نے آنکھ مار کر پوچھا

‘صاحب امارو سوغات تو پینے کا پانی ہووے ہے, دو گراماں دور سے لاوے ہیں، بولو تو لاووں؟’ (صاحب ہماری سوغات تو پینے کا پانی ہے جو دو گاوں دور سے لے کر آتے ہیں۔ آپ کہو تو پیش کروں؟)

کیپٹن رابرٹ کا چہرہ ایک دم سے سرخ ہوگیا

‘ ابے الو کے پٹھے ٹم یہاں دشمن کے ایجنٹ چھپاٹے ہو؟’ یہ کہہ کر کیپٹن نے چار جوانوں کو جھونپڑی کی تلاشی لینے کیلئیے اشارہ کیا۔

ان میں سے دو فوراً باہر آ گئے دونوں نے ایک سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی پکڑ رکھی تھی جو کانپ رہی تھی اور کبھی کبھی انتہائی خوفزدہ نظروں سے کن اکھیوں سے گرد و پیش کا جائیزہ لیتی۔

‘صاحب یہ اندر چھپی ہوئی تھی’ ایک جوان نے آ کر سلیوٹ کرتے ہوئے کیپٹن صاحب کو مخاطب ہو کر کہا۔

کیپٹن رابرٹ سے پہلے بڈھا بول پڑا ‘ حجور یہ امارو سلامو کی کُنّا ہے اکلوتی ہے صاحب’ (حضور یہ ہمارے سلامو کی بیٹی ہے یہ اکلوتی ہے صاحب) اس کی آواز کانپ رہی تھی۔

کیپٹن رابرٹ کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک آ گئی

‘گندی نالی کے کیڑے، مگرمچھ کی اولاد، لڑکی کے ذریعے دشمن کے ساتھ جاسوسی کا اڈہ چلا رہا ہے’ یہ کہتے ہوئے کیپٹن رابرٹ نے ایک زور دار جھانپڑ اسکی گردن اور کانوں پر مارا۔ بڈھا گرا تو دوبارہ اٹھ نہ سکا بلکہ اسکے ارد گرد کی کچی زمین بھی گیلی ہوگئی۔ بڈھا بےچارگی اور شرم سے جیسے زمین میں گڑ گیا۔

کیپٹن رابرٹ نے ایک آنکھ میچ کر صوبیدار میجر شفقات کی طرف دیکھ اور کہا

‘اس حرامزادی سے ابھی ٹفٹیش ہوگی’ یہ کہہ کر لڑکی کو اسکی چٹیا سے پکڑا اور دھکیلتے ہوئے اور ایک ہاتھ سے پتلون سنبھالتے ہوئے جھونپڑی میں لے گیا۔

بڈھے کی بیوی جو خاموشی کھڑی دیکھ رہی تھی اچانک صوبیدار میجر شفقات حسین اورکزئی کے قدموں میں گر کر گڑ گڑانے لگی۔ ۔’ صاحب امارو کنا کو گولی مور دیو صاحب امارو کو بھی گولی مار دیو۔ ۔ صاحب امارو پر احسان کیجو صاحب’ ( صاحب ہماری بیٹی کو گولی مار دیں ہمیں بھی گولی مار دیں، صاحب ہم پہ احسان کیجیئے)

شفقات حسین نے ایک لمحہ کچھ سوچا اور لات مار کر بڈھی کو پرے کیا اور ریوالور نکال کر جھونپڑی میں چلا گیا

ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ دھماکوں کی آوازوں سے ماحول گونج اٹھا

صوبیدار میجر شفقات جھونپڑی سے برآمد ہوئے تو لڑکی کو چٹیا سے پکڑا ہوا تھا اسے بڈھے اور بڈھی کے اوپر دھکا دیا اور جیسے غرا کر بولے

‘دفع ہو جاؤ اور خبردار پیچھے مڑ کر دیکھا تو’

اسکے بعد باقی سپاہئیوں کی طرف لال لال آنکھوں سے گھور کر دیکھتے ہوئے بولے

‘بے غیرت کا بچہ تھا۔ اگر تم میں سے کسی نے اس معاملے میں آواز نکالی تو خدا کی قسم میں اسکی تشریف تندور کی طرح ۔ ۔ ‘

جوانوں میں اچانک پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث ایک سراسیمگی سی تھی مگر چہروں پر ایک اطمینان سا بھی تھا

کچھ فاصلے پر سنگلز کا جوان زمین پر بیٹھا ریڈیو کر رہا تھا

‘ہیلو ہیلو ڈیلٹا ٹو چارلی ہیلو ہیلو بی فائیو پر دشمن نے ایمبش کر دی ہے ہیڈماسٹر کی کیژولیٹی ہو گئی ہے, ہیلو ہیلو ڈیلٹا ٹو چارلی’

Read Previous

نصیب کی بارشیں

Read Next

دوسری منزل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Most Popular