• جنوری 20, 2025

تین بجے والی فلائٹ

‘یار۔۔ایک تیرے لئیے خبر ہے۔۔۔’ فون پر سکاٹ لینڈ سے چھوٹا بھائی فرحان تھا۔
‘ہاں کہو۔۔خیریت ہے نا’ میں نے پوچھا۔
‘لئیق انکل گزر گئے’ فرحان نے بتایا۔
‘ارے۔۔۔اناللہ و انا الیہہ رجعون۔۔۔یہ کب ہوا؟’ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا، پیٹ میں ایک گھونسا سا پڑا تھا۔

بات پرانی تھی، سمجھنے کیلئیے ضروری ہے کہ ماضی کے چند اوراق کریدے جائیں۔ بات شروع ہوئی نوے کی دہائی کے وسط سے۔ ۔ جب ایک ایم این اے صاحب گھر کی یوٹیلیٹی سروسز تو استعمال کرتے رہے مگر بل ادا کرنے سے گریزاں رہے، یوں کرتے کرتے بل اڑھائی تین لاکھ روپے تک جا پہنچا۔ اس دور میں یہ ایک اچھی خاصی معقول رقم ہوا کرتی تھی۔ جب بل اس قدر بڑھ گیا تو ایم این اے نے والد صاحب سے رابطہ کیا اور بل زیادہ آنے کی شکایت کی۔ والد صاحب نے کہا کہ میں تحقیقات کرواتا ہوں اگر کوئی تکنیکی مسئلہ نکلا تو ہم اسکو درست کروا دیں گے۔ والد صاحب نے تحقیقات کروائیں تو کوئی مسئلہ سامنے نہ آ سکا۔ بل ہر مہینے باقاعدہ انکے گھر جاتا رہا تھا اور یہ کئی مہینے تک بل کو نظر انداز کرتے رہے۔ واضح طور پر سروسز استعمال کی گئی تھیں جسکا بل اب ایم این اے صاحب کو ادا کرنا چاہئیے تھا۔ سو، والد صاحب نے ایم این اے کو کال کی اور آگاہ کیا کہ ہماری تحقیقات میں کوئی تکنیکی مسئلہ سامنے نہیں آ سکا، یہ بل جائیز ہے اور آپکو ادا کرنا ہوگا۔ بنیادی طور پر والد صاحب نے ایم این اے کا بل معاف کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔
اس بات پہ ایم این اے صاحب بھڑک اٹھے، پہلے تو گالم گلوچ کی اور پھر کہا دیکھتا ہوں تم اس سیٹ پر کیسے رہتے ہو، اور یوں ہی ہوا۔ شام سے پہلے پہلے والد صاحب کی ٹرانسفر کی احکامات آ گئے۔
والد صاحب کہ کسی کی دھونس برداشت کرنا یا مرعوب ہونا فطرت میں تھا ہی نہیں، ٹرانسفر قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اپنے سنئیر افسر سے بات کی اور اصل معاملے سے آگاہ کیا، سنئیر افسر نے شدید سیاسی دباؤ کے آگے اپنی مجبوری بیان کی اور والد صاحب کو مشورہ دیا کہ فی الوقت نئی جگہ پر جوائیننگ دے دیں ذرا معاملہ ٹھنڈا ہوگا تو نظر ثانی کر لیں گے۔ لیکن یہ حل والد صاحب کو کسی طور قبول نہیں تھا۔ کچھ عرصہ قبل ہی والد کے موٹر سائیکل سے گر کر گھٹنے پر شدید چوٹ آئی تھی، آپ نے میڈیکل اایگزیم کروایا چوٹ ثابت ہو گئی اور آپ نے جوائیننگ دینے کی بجائے طبی بنیاد پر چھٹی لے لی۔
والد صاحب کا خیال تھا کہ چھٹی لے کر اپنے طور پر مسئلے کے جائیز حل کیلئیےکوشش کرتے رہیں گے، انہیں ایم این اے کا رویہ اور طرزعمل کسی طور قبول نہیں تھا۔ لہٰذا چھ ہفتے کی میڈیکل لیو کے بعد ایک اور میڈیکل لیو اور پھر اتنی ہی ایک اور، اب اس بات کو ساڑھے چار ماہ ہو چکے تھے۔ ایم این اے پوری کوشش کر رہا تھا کہ کسی بھی وجہ سے ٹرانسفر کینسل نہ ہو پائے۔ دوسری طرف والد صاحب کو کسی طور دھونس اور بدمعاشی قبول نہیں تھی۔ جب طبی بنیادوں پر رخصت کی آپشن ختم ہو گئی تو والد صاحب نے تنخواہ کے بغیر طویل رخصت کی درخواست دے دی جو کہ منظور ہو گئی۔ اب گھر کا گزارہ مکمل طور پر تھوڑی بہت زرعی آمدن پر تھا۔ انہی دنوں اسی سلسلے میں کسی سے ملنے کیلئیے ابو کا بھکرشہر جانا ہوا۔ لئیق انکل سے ابو کی پہلی ملاقات یہیں ہوئی تھی۔
 والد صاحب جب بھکر سے واپس آئے تو لئیق انکل ہمراہ تھے۔ درمیانے قد کے، سر اور مونچھوں میں بال سیاہ سے زیادہ سفیدی سے متاثر، سر تقریباً فارغ البال لہٰذا ایک گلگتی ٹوپی ہمیشہ سر پر رکھتے جو ان پہ بہت بھلی لگتی۔ آواز میں ہلکا سا کرارا پن، روشن آنکھیں، کشادہ پیشانی اور چہرے پر سادگی معصومیت، شرافت اور اخلاص کی مہر۔ دونوں کی ابتدائی گفتگو سے مجھے اندازہ ہوا کہ لئیق انکل کے کچھ اٹر رسوخ والے ذرائع ہیں جن کو استعمال کر کے ابو کی مدد کرنا چاہ رہے ہیں۔ بہرحال لئیق انکل گھر پہ تھے اور والد صاحب کے ساتھ گاڑھی چھنتی تھی۔ ان دنوں موبائل عام نہیں ہوئے تھے لہٰذا دن بھر دونوں لینڈ لائن فون پر ادھر ادھر رابطے کرتے رہتے۔
شروع شروع میں تو میں کچھ تشکیک کا شکار تھا، میرا خیال تھا پچھلی بےشمار مثالوں کی طرح والد صاحب کے یہ دوست بھی کوئی نئی مالی چوٹ لگائیں گے اور ہوا ہو جائیں گے مگر بعد ازاں میرا یہ تجزیہ غلط ثابت ہوا، لئیق انکل نے کبھی کوئی مالی مطالبہ کیا نہ ہی ناجائیز فائدہ اٹھایا۔ یوں ہی کرتے کراتے سال بھر گزر گیا۔ لئیق انکل مہینے میں ایک یا دو بار بھکر سے طویل سفر کر کے آتے، سفر جو کہ بالکل بھی آسان نہیں تھا مگر وہ آتے ہر بار کوئی نئی ٹپ لے کر آتے اور پہلے سے زیادہ پرجوش ہوتے، ابو کا حوصلہ بڑھاتے، نئی راہیں تلاش کرتے اور پھر اپنے لئیے خود ہی ایک نئی اسائنمنٹ تیار کر کے واپس چلے جاتے۔ بھکر سے فون پر ابو سے رابطہ رکھتے، جو کام ابو کے ذمہ لگایا ہوتا ابو سے اسکی پراگریس دریافت کرتے اور پھر کچھ دنوں یا ہفتے بھر بعد انکل ہمارے ہاں آ جاتے۔ لئیق انکل آ جاتے تو ابو کو بڑا حوصلہ رہتا۔ مالی مشکلات، زیادتی اور ناانصافی کے احساس اور غیر یقینی مستقبل کے باوجود لئیق انکل کی موجودگی میں ابو کا حوصلہ بہت بلند اور سوچ کی لہر مثبت رہتی۔ اس دوران میں نے مشاہدہ کیا کہ لئیق انکل کی ایک خاص عادت ہے، دونوں دوست چونکہ مہمانوں کے کمرے میں ہی اکٹھے سویا کرتے تو لئیق انکل رات کے شروع کے حصے میں سو جاتے اور اچانک رات اڑھائی تین بجے اٹھ کر بیٹھ جاتے اور اپنی نیم کراری آواز میں رات کے سناٹے میں بہ آوازِ بلند گویا ہوتے۔۔۔’اپنا چوہدری صاحب!’ اور پھر انکل اپنی نئی تجویز پیش کرتے جو کہ غالباََ انہیں نیند میں ہی کشف ہوئی ہوتی۔ رات کو چونکہ مکمل سناٹا اور خاموشی ہوا کرتی ہے تو ایسے میں انکل کی آواز سے تقریباً تمام گھر والوں کی آنکھ کھل جاتی، مگر چونکہ مہمان تھے تو کبھی بھی کوئی انکے سامنے ناگواری کا اظہار نہ کرتا۔
مجھے ایسے میں خاص طور پر مسئلہ ہوتا کہ میں چونکہ رات کو اکثر لیٹ سونے کا عادی تھا تو عین اس وقت جب میں گہری نیند سو رہا ہوتا ۔۔ایک کراری سی آواز ‘اپنا ۔۔چوہدری صاحب!’ جگا دیا کرتی اور یوں میں باقی کی رات دوبارہ سونے کی کوشش میں گزار دیتا۔ میں اور فرحان چونکہ ایک کمرے میں سوتے تو میری ناگواری اور بُڑ بُڑ سے فرحان بہت محظوظ ہوتا۔ میں نے  انکل کی اس عادت کا نام رات ‘تین بجے والی فلائٹ’ رکھ دیا۔ اب ہوتا یوں کہ ہم دونوں بھائی آپس میں گفتگو کرتے تو اس واقعہ کا ذکر تین بجے والی فلائٹ کے طور پر ہی کرتے۔ کام کرتے کرتے ہم میں سے ایک جب لائٹ آف کر کے سونے کی تجویز دیتا تو اکثر دوسرا جواب دیتا، تین بجے والی فلائٹ نکل لے تو پھر سوتے ہیں۔
والد صاحب کو اب بغیر تنخواہ کے رخصت لئیے دو سال ہو چکے تھے، انکل لئیق اب ہمارے گھر کے فرد بن چکے تھے۔ انکی جدوجہد اور آمد و رفت کی روٹین میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ میں مزید اعلٰی تعلیم کیلئیے لاہور جا چکا تھا ، انکل کی آمد اور فلائٹ اب فرحان اور میرے درمیان ایک کوڈ ورڈ بن چکا تھا۔ میں اکثر لاہور سے فون پہ بات کرتے فرحان سے پوچھ لیتا کہ فلائٹ سکیجوئل کا سناؤ؟ یا فرحان مجھے آگاہ کر دیا کرتا کہ فلائٹ لینڈ ہو چکی ہے، اور ہم دونوں ہنس دیا کرتے۔
یوں ہی کرتے کرتے اڑھائی سال سے زائد گزر گئے حکومت بدل گئی۔ ایم این اے کا اثر رسوخ ختم ہو گیا۔ نئی حکومت آئی تو ابو کا ٹرانسفر کیس جس سے اب تقریباً ان کا سارا محکمہ آگاہ تھا خود بخود کینسل کر دی گئی۔ بالاخر تین سال سے ذرا کم عرصے کے بعد ابو نے جوائیننگ دے دی۔ محکمے میں ابو کے اصولی موقف پر ڈٹے رہنے پر ابو کو بہت تحسین کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ لئیق انکل اب بھی ہمارے پاس آتے، اب مجھے انکی بہت قدر ہوا کرتی۔ اس تقریباً تین سال کے عرصے میں لئیق انکل واحد شخصیت تھے جو بلا کسی غرض و غایت کے بےلوث ہو کر ہمارے والد صاحب کے انتہائی مشکل وقت میں ساتھ کھڑے رہے تھے۔ آپ نہ صرف اپنا گھر بار چھوڑ کر طویل سفر کر کے آتے بلکہ کبھی کوئی غیر ضروری توقع بھی نہ رکھتے۔
وقت گزرتا گیا، اب میری شادی خانہ آبادی ہو چکی تھی انہی دنوں میرا ڈرائیونگ لائسینس لاہور میں کہیں گم ہو گیا۔ میں نے پولیس رپورٹ وغیرہ کروائی۔ ماضی میں ابو کی پوسٹنگ چونکہ ایک دفعہ بھکر میں رہ چکی تھی تو میرا ڈرائیونگ لائسینس بھی بھکر کا ہی تھا کہ ابو کی واقفیت کی بناء پر ٹیسٹ کی ڈیٹ ذرا آسانی سے مل گئی تھی۔ ان دنوں ڈرائیونگ لائسینس پر ویسے بھی کچھ سختی نہیں ہوتی تھی۔ میں نے لائسینس گم ہونے اور ڈپلکیٹ نکلوانے کا ابو سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ اس میں کیا پریشانی کی بات ہے؟ تم کل ہی بس لے کر بھکر چلے جاؤ اور اپنے لئیق انکل سے ملو میں انہوں کال کر دیتا ہوں وہ تمھاری مدد کریں گے. سو میں نے بس پکڑی اور ایک انجر پنجر ہلا دینے والی لمبی سفری رات کے بعد صبح صبح بھکر پہنچ گیا۔ لئیق انکل بس اڈے پر مجھے لینے آئے تھے، بہت تپاک سے ملے۔ پوچھنے لگے کہ پہلے گھر چلو گے یا پہلے کام کر لیں؟ عرض کیا کہ انکل اگر گھر چلے گئے تو دفاتر کا وقت نکل جائے گا، سو ہم بھکر کی کچہری پہنچ گئے جہاں مقامی پولیس دفاتر موجود ہوتے ہیں۔ ایک ڈی ایس پی صاحب کو اپنا مدعا بتایا، انہوں نے ہماری درخواست مارک کر کے متعلقہ برانچ کے انچارج کو ہدایت جاری کر دی کہ سائل کے کاغذات مکمل ہیں ڈرائیونگ لائسینس کی کاپی جاری کر دی جائے۔
متعلقہ برانچ پہنچے تو ایک باوردی حوالدار عہدے کا شخص کرسی پر متمکن تھا، اس نے مکمل طور پر فارغ ہونے کے باوجود ہمیں نظرانداز کرتے ہوئے دو گھنٹے بعد آنے کا کہہ دیا۔ دو گھنٹے بعد گئے تو کہا کہ کل آئیں۔۔ شاید وہ کچھ چائے پانی چاہ رہا تھا جب کہ میرا چائے پانی دینے کا بالکل ارادہ نہیں تھا کہ میرا کاغذات مکمل تھے۔ جب میں نے کچھ دلائل دینے کی کوشش کی تو حوالدار نے شرط عائد کر دی کہ ایس پی صاحب سے درخواست مارک کروا کے لائیں تو ہی بن سکے گا۔ ایس پی جو کہ کوئی ریٹائیرڈ کیپٹن صاحب تھے اس دن اپنی سیٹ پر موجود نہیں تھے شاید لاہور وغیرہ گئے ہوئے تھے۔ یعنی اس دن ہمارا کام نہیں ہونا تھا۔ میں کافی مایوس تھا، انکل لئیق نے کہا کچھ کرتے ہیں، چلو پہلے گھر چل کر کھانا کھاتے ہیں پھر دیکھتے ہیں۔
لئیق انکل کافی صاحب حیثیت آدمی تھے، ایک کنال بھر کا گھر جو جدید طرزِ تعمیر کے مطابق بنا ہوا تھا، انکا مسکن تھا۔ انکل کے تین بیٹے تھے جو اچھے تعلیم یافتہ تھے۔ تین میں سے دو اپنا کاروبار چلا رہے تھے اور ایک غالباً کوئی نوکری کر رہا تھا۔ تینوں بیٹے اور بہویں انکل کے فرمانبردار اور ساتھ ہی اس گھر میں رہائش پذیر تھے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی احساس ہوا کہ بڑے گھر اور جدید فرنیچر کے باوجود انکل کا رہن سہن دیہاتی ہی تھا۔ انکل نے اپنا اصل اور اپنی بنیاد نہیں چھوڑی تھی۔ ساگ کے اوپر تیرتے ہاتھ بھر مکھن کے ڈھیلے، مکھن سے چُپڑی روٹی اور لسی کے ساتھ زندگی کا بہترین کھانا کھایا، کھانے کے بعد انکل فیملی روم میں ہی ٹی وی کے سامنے بچھی چارپائی پر لیٹ کر اونگھنے لگے، میں برابر میں صوفے پر بیٹھا چائے کی چسکیاں لے رہا تھا کہ اچانک انکل کی آنکھ کھلی اور اٹھ کر بیٹھ گئے۔ اپنی نیم کراری آواز میں بولے ‘اپنا۔۔کاکا۔۔یار تیری شادی ہو گئی اے ناں؟’ عرض کیا ۔ ۔جی۔ کہنے لگے سنا ہے تمھارے سسر کے ایک کزن کسی وفاقی ایجنسی میں بڑے افسر ہیں؟ عرض کیا۔۔۔جی
کہنے لگے تو سمجھو تمھارا کام ہو گیا۔ عرض کیا ۔۔۔جی میں کچھ سمجھا نہیں؟
کہنے لگے۔۔۔دیکھو تم اپنے سسر سے بات کرو، تمھارے سسر اپنے کزن سے بات کریں، انکے کزن ایس پی صاحب سے بات کریں اور ایس پی صاحب لائسینس برانچ کےحوالدار سے بات کریں تو سمجھو تمھارا کام ہو گیا۔
میں نے اچانک وال کلاک پر نظر دوڑائی تو دوپہر کے تین بج رہے تھے۔ میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ تین بجے والی فلائٹ پہنچ چکی تھی گو کہ رات کی بجائے سہ پہر تین بجے پہنچی تھی، لیکن۔ ۔ پہنچ چکی تھی۔

Read Previous

ظفر، وسیلہء سفر

Read Next

کلیدِ کامیابی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Most Popular