• جنوری 20, 2025

تبدیلی رضاکار

حقیقی واقعہ ہے اس لئیے ناموں کے معمولی رد و بدل کے ساتھ کوشش ہوگی کہ واقعات اصل جزئیات کے ساتھ پیش ہو سکیں۔
نوے کی دہائی کے اوائل کی بات ہے اور ہم اس وقت متوسط طبقے سے تعلق کے باعث اپنے شہر کے مرکزی گورنمنٹ ہائی سکول میں جماعت نہم کے طالب علم تھے۔ عمر بھی کچھ ایسی کہ شیو تو درکنار ابھی مسیں بھی پوری طرح نہ بھیگی تھیں۔ لہٰذا قدرتی طور پر بہت جوش و جذبہ اور توانائی، قائدانہ صلاحیت اور رگ و پے میں انقلاب لانے کا جنون، بس یوں محسوس ہوتا کہ ذرا اختیار مل جائے سہی سب کچھ ایک دم ٹھیک کر دیں گے۔ انہی دنوں خلیج کی جنگ ہورہی تھی اور ہم دن کو سکول جاتے اور شام کو محلے کے بچے اکٹھے کر کے انہیں ایک ایک کون آئیس کریم کھلانے کا لالچ دے کر بش سینئیر کے خلاف اور صدام حسین کے حق میں جلوس نکالا کرتے۔

ہمارے سکول کے ہیڈ ماسٹر میاں شفیق صاحب اپنے نام کے برعکس نہایت سخت طبیعت آدمی تھے۔ نظم و ضبط میں ذرا سی بھی کوتاہی برداشت نہ کرتے۔ قصوروار کو خود چھڑی لے کر سزا دیا کرتے۔ جب بھی وقت ملتا بڑی جماعتوں یعنی نہم اور دہم کے طلبا کو خود پڑھاتے۔ اکثر صبح اسمبلی کے وقت بلیک بورڈ منگوا کر تمام سکول کے طلبا کو انگریزی کے ٹینس اور گرائمر خود سکھاتے۔ یہی وجہ تھی کہ ان دونوں مسلسل چار سال سکول کے طلبا میٹرک کے بورڈ کے امتحانات میں ڈویژن بھر میں اول یا دوئم آیا کرتے۔ در حقیقت میاں شفیق صاحب کی سختی علاقے بھر میں مشہور تھی۔

سکول کے دوسرے قابل ذکر کردار فیزیکل ٹریننگ انسٹرکٹر جنھیں عرفِ عام میں پی ٹی ماسٹر کہا جاتا ہے وہ ماسٹر شبیر صاحب تھے۔ آپ دراز قد چوڑے چکلے، رنگ کالا بجھنگ، زردی مائل سرخ آنکھیں، سگریٹ کے ساتھ سگریٹ سلگایا کرتے اور بڑی زور آور شخصیت کے مالک تھے۔ پی ٹی ماسٹر شبیر صاحب کے تیار کردہ ایتھلیٹس ضلع بھر میں مثالی ہوتے۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارے سکول کی رسہ کشی، باکسنگ، کشتی اور ریلے ریس کی ٹیمیں پچھلے سولہ برس سے پورے ضلع میں ناقابلِ شکست تھیں۔ اس کا کریڈٹ بجا طور پر پی ٹی شبیر صاحب کو ہی جاتا تھا۔ اپنی اس کارکردگی کی بنیاد پر پی ٹی شبیر صاحب بہت سی چیزوں میں لبرٹی لیتے اور کسی دوسرے ٹیچر کی مجال نہ ہوتی کہ وہ پی ٹی ماسٹر شبیر صاحب کو ٹوک سکے یا انکے کام میں کوئی نقص نکال سکے۔ پی ٹی شبیر صاحب اکثر نئے آنے والے لڑکوں کو جماعت ششم سے ہی تاڑ لیتے اور انکو بلا کر ایتھلیٹ بننے کی حکم نما آفر کرتے۔ بدلے کے طور پر طالب علم کو معلوم ہوتا تھا کہ ششم جماعت سے لے کر نہم جماعت تک انہیں پاس ہونے کی فکر نہیں کرنی ہے۔ یہ ایتھلیٹ طلبا برائے نام ہی کلاس روم میں جایا کرتے اور ان کی حاضری بھی آٹومیٹکلی لگ جاتی اور وہ پاس بھی ہوتے رہتے۔ دہم میں بورڈ کے امتحان کی صورتحال البتہ مختلف ہوتی۔ سنا تھا کہ شبیر صاحب آٹھویں جماعت کے بورڈ کے امتحانات میں بھی اپنے ایتھلیٹس کو پاس کروا لیا کرتے تھے۔ ان میں سے اکثر طلبا دہم میں ایک دو بار فیل ہونے کے بعد ہلکے پھلکے بدمعاش بن جاتے یا چوری چکاری میں لگ جاتے۔ ان میں سے بہت کم تھے جو بعد میں معاشرے کا کارآمد حصہ بنتے۔

ہیڈماسٹر میاں شفیق صاحب اپنی جگہ پوری کوشش کرتے مگر پی ٹی شبیر صاحب اکثر اوقات انکی بات سنی ان سنی کر دیتے۔ میاں شفیق صاحب کی سخت اور نظم و ضبط کی پابند طبیعت کے باعث اکثر اساتذہ بھی ان سے نالاں رہتے۔ پیٹھ پیچھے غیبت گوئی کرتے مگر سامنے انتہائی فرمانبردار بنے رہتے۔

مجھے یاد ہے ایک دن فزیکل ڈرل کے پیریڈ میں ہم تمام نہم جماعت کے سیکشنز شبیر صاحب کے پاس جمع تھے شبیر صاحب چند دیگر ساتھی اساتذہ کے ساتھ گفت و شنید میں مصروف رہے اور تھوڑی دیر بعد ہم طلبا کو آ کر بتایا کہ کس طرح سکول کو لوٹا جا رہا ہے۔ سکول کے فنڈز کا کوئی حساب نہیں ہے۔ سکول کے ریٹائیرنگ روم سے ڈنر سیٹ اور ٹی وی وغیرہ چوری کر لئیے گئے ہیں۔ اور ہم اب اپنے اس عظیم سکول کو مزید برباد نہیں ہونے دیں گے وقت آ گیا ہے کہ آپ طلبا باہر نکلیں اور احتجاج کریں آپکو ہماری مکمل سپورٹ حاصل ہے آپ کو کوئی کچھ نہیں کہےگا۔ ہم چونکہ فطری طور پر تبدیلی رضا کار تھے اس لئیے فوراً نعرہ تکبیر اللہ اکبر بلند کر کے انقلاب و تبدیلی کا اعلان کر دیا۔ باقی طلبا بھی چونکہ ہمارے ہی ہم عمر تھے لہٰذا پی ٹی شبیر صاحب کی تقریر اور ہمارے جذبات سے پُر نعرہ جات نے بھرپور اثر کیا اور تھوڑی ہی دیر میں ہم نے سکول میں اودھم مچا دیا۔ تمام جماعتوں میں جا کر طلبا اور اساتذہ کو بتا دیا کہ پڑھائی فوری طور پر روک دیں انقلاب آ چکا ہے اب سکول میں مزید لوٹ مار کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سکول میں افراتفری پھیل گئی ہر طرف دھما چوکڑی اور ہاہوکار مچ گئی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب شور سن کر باہر نکلے، بغاوت اور انارکی پھیلی دیکھ کر بات کرنے کی کوشش کی مگر جب بپھرے ہوئے طلبا نے ان پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو چوکیدار اور چپڑاسی انہیں اپنے پہرے میں لے کر دفتر میں چلے گئے اور حفاظتی طور پر دروازہ بند کر دیا۔ کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف احتجاج کے دوران ہمارے کچھ ساتھیوں نے سکول کے داخلی دروازے کے ساتھ پڑے قیمتی آرائشی گملوں، کلاس رومز کے لائٹ بلب، چاک کے ڈبے اور رجسٹر حاضری وغیرہ کو مستقل طور پر اپنے گھروں میں منتقل کر کے ہیڈماسٹر صاحب کی لوٹ مار سے بچا لیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ کسی نے سکول کا ڈیڑھ فٹ قطر کا توا نما گھنٹہ جس پر ہتھوڑا برسا کر چھٹی کا اعلان کیا جاتا ہے وہ بھی حفاظتی طور پر اپنے گھر منتقل کر لیا ہے بس مشکل یہ ہوئی کہ کبھی پتہ نہ چل سکا کہ کس نے منتقل کیا ہے اور سکول کو چھٹی کا نیا گھنٹہ منگوانا پڑا، مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان لوازمات کو ہیڈماسٹر صاحب کی لوٹ مار سے تو بچا لیا گیا نا۔

جب ہر طرف افرتفری پھیل گئی ۔ ۔ بھاگم دوڑ، توڑ پھوڑ اور نعرہ بازی شروع ہو گئی تو جلتی پر تیل کا کام کرنے کیلئیے ہمارے قائد پی ٹی شبیر صاحب نے حکم جاری کر دیا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب کو نعرہ بازی میں میاں صاحب کہنے کی بجائے پوڈا کہا جائے اس سے دشمن کے حوصلے مزید پست ہوں گے۔ ہم چونکہ میاں شفیق صاحب کی سختیوں اور نظم و ضبط سے پہلے ہی نکو نک آئے ہوئے تھے اس لئیے فوراً والدین کی دی گئی اخلاق و تربیت کو بالائے طاق رکھا اور قائد کے حکم پر سر تسلیم خم کر دیا۔ اگلے مرحلے کے طور پر سکول کے اندر توڑ پھوڑ روک کر تبدیلی رضا کار طلبا کو باہر سڑک ہر آنے کا اشارہ کیا۔ طلبا باہر جمع ہونا شروع ہوئے تو انکو قائدِ انقلاب پی ٹی شبیر صاحب کا حکم گوش گزار کیا، تبدیلی کی اس با برکت گھڑی میں تبدیلی رضاکار طلبا کی تخلیقی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آ ئیں اور انہوں نے لفظ پوڈا کو پوڈا کتا میں بدل لیا۔ اب ہم شہر کی مین شاہراہ پر ہاتھوں میں لاٹھیاں ہاکیاں اور بلے لہراتے پوڈا کتا ہائے ہائے کے نعرے لگاتے ہوئے جلوس نکال رہے تھے۔

عوام الناس میں سے اکثر لوگوں نےوجہ پوچھی تو بتایا کہ ہیڈماسٹر صاحب کی کرپشن کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ لوگوں نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا کچھ کہتے ‘بہت اچھا کیتا اینے میرے منڈے نوں وی داخلے نئیں ُسو دتا’ جبکہ باقی نا سمجھ کم عقل اور غلام ذہنیت کے لوگ کہتے پائے گئے کہ یہ آپکا کام نہیں ہے۔ آپ سکول میں صرف اور صرف پڑھائی کرنے جاتے ہیں۔ آپکو توڑ پھوڑ کا کس نے حق دیا؟ ایک نے تو ہم سے یہ بھی پوچھ لیا کہ کیا کرپشن کی؟ ہم نے بتایا کہ ڈنر سیٹ لے گئے ہیں تو اس نےپھٹکار ڈالنے کے انداز میں کہا ‘لخ دی لعنت تہاڈے سر’ ہم سمجھ گئے کہ اسکی بھی وہی غلام ذہنیئت ہے۔

بہرحال میاں شفیق صاحب اسی دن کپڑے کے تھیلے میں اپنے چند کاغذات سمیٹ کر گھر چلے گئے۔ سنا تھا کہ بات بہت دل پر لے گئے ہیں۔ اور کسی سے ملتے جلتےنہیں ہیں۔ چند ہفتوں بعد نئے ہیڈ ماسٹر صاحب آ گئے جو تعلیم سے زیادہ تصوف سے شغف رکھتے تھے۔ دفتری اوقات میں اکثر اساتذہ کو لڑکا ہونے کا پانی دم کر کے دیتے اور نالائق و ناہنجار قسم کے طلبا کو تعلیم میں دل لگنے کا تعویز بھی لکھ کر دیتے۔ طلبا کو بھی اب سہولت ہو گئی تھی تفریح کے پونے گھنٹے میں ڈیڑھ گھنٹے بعد بھی آتے تو کوئی کچھ نہ کہتا۔
ہم دہم جماعت میں پہنچے تو ایک دن نئے ایتھلیٹس کی بھرتی کے دوران پی ٹی شبیر صاحب نئے طلبا کو تمام کلاسوں میں پاس ہونے کی یقین دہانی ان الفاظ میں کرواتے اپنے کانوں سے خود سنے کہ ‘ میں تاں میاں شفیق کڈوا چھڈیا سی اے کی شے ہیگا’ تو کچھ عجیب سا لگا۔

میاں شفیق صاحب کا ایک سال بعد انتقال ہو گیا اور اسکے ایک سال بعد پی ٹی شبیر بھی دارفانی سے کوچ کر گئے۔ فرق صرف یہ ہوا کہ اگلے چودہ سال تک ہمارے سکول کا کوئی طالب علم بورڈ میں کوئی پوزیشن نہ لے سکا۔ جس سکول میں داخلے کے لئیے لوگ سفارشیں ڈھونڈا کرتے اب اس میں داخلہ پورا کرنے کے لئیے گھروں میں اشتہار پھینکوائے جاتے۔

Read Previous

رشّی جی کی جے ہو

Read Next

تیرہ تولے کی چین

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Most Popular