• جنوری 20, 2025

بی آر آئی، پمی اور سی کلاس

“اب انکی طبیعت کیسی ہے؟” کمرے میں موجود پچیس چھںیس سال کے نوجوان نے پوچھا۔ ۔

“کچھ خاص نہیں، بس کچھ دنوں سے دیوار پر لگی اس تصویر کو دیکھتے رہتے ہیں”..گہرے نیلے رنگ کا میڈیکل نرسوں والا لباس پہنے ہوئی نرس نے وہیل چییر پر بیٹھے بوڑھے مریض کی طرف اشارہ کر کے جواب دیا۔

وہیل چئیر پر بیٹھے مریض سردار من ویر سنگھ براڑ تھے۔

سردار من ویر سنگھ براڑ اسی کی دہائی کے اواخر میں کینیڈا پہنچے تھے۔ براڑ صاحب کے پتا جی سردار مکھن سنگھ براڑ نے اپنے طویلے سے دو عدد دودھل بھینسیں اور باہر والا احاطہ بیچ کر براڑ صاحب کے باہر جانے کا انتظام کیا تھا۔ اکلوتے بیٹے کی ضد اور علاقے میں پرانی دشمنی کے ہاتھوں مجبور ہو کر بھاری دل سے سردار مکھن سنگھ نے اپنے ایک دور پار کے رشتے دار کو وینکوور کینیڈا میں خط لکھا تھا کہ میری تو جیسے تیسے گزر گئی، اس سے پہلے کے میرا بیٹا بھی زمینوں اور مقدمے بازی کی بھینٹ چڑھ جائے اسے باہر بلا کر مجھ پر احسان کر دو۔ رشتے دار گرپریت سنگھ وینکوور کے نواح میں ایک فرنیچر کے کارخانے کے مالک تھے، انہیں ہر وقت ورکرز کی ضرورت تھی یوں انہوں نے سردار مکھن سنگھ کی بھاری نقدی کے عوض آفر قبول کر کے انکے بیٹے کو کینیڈا بلا کر احسان کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ بھلے وقت تھے، ان دنوں ویزے کیلئیے بھی کچھ خاص تردد نہیں کرنا پڑتا تھا، سو ویزا مل گیا، ٹکٹ کٹا اور یوں براڑ صاحب کینیڈا پہنچ گئے۔

براڑ صاحب فیروزپور کے قریب واقعہ اپنے گاؤں کے سکول سے چار جماعت پڑھے تھے پانچویں جماعت کی پڑھنے کی نوبت یوں نہ آئی کہ ایک دن ماسٹرجی ننھے منویر سنگھ کے دو تھپڑ لگا بیٹھے، بس وہ دن منویر سنگھ براڑ کا سکول میں آخری دن تھا۔

واجبی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود براڑ صاحب ذرخیز ذہن کے مالک تھے، غیر ملک کے طور اطوار اور زبان سیکھنے میں براڑ صاحب کو زیادہ عرصہ نہ لگا، انتہائی اعتماد سے غلط ملط انگریزی بول دیتے جب مخاطب انتہائی شائستگی سے درستی کرتا تو اسے یاد رکھتے۔ جب اسی کے دہائی کے اواخر میں کینیڈا پہنچے تھے تو بھرپور جوانی تھی، خوش شکل تو تھے ہی مگر درمیانے سے ذرا نکلتے قد، سڈول جسامت، ترشی ہوئی داڑھی اور لباس کے انتخاب سے پرکشش شخصیت کے مالک نظر آتے۔

فرنیچر کے کارخانے کی مینیجری براڑ صاحب کے مزاج اور شخصیت سے لگاؤ نہیں کھاتی تھی، لہٰذا براڑ صاحب نے ایک آدھ سال کے بعد ہی کارخانے کی نوکری ترک کر کے رئیل اسٹیٹ کی جانب دھیان کر لیا۔ رئیل اسٹیٹ کے بنیادی کورسز کئیے تو جلد ہی ایک مقامی گورے رئیل اسٹیٹ ایجنٹ ٹونی کیمبل کے ہاں نوکری مل گئی۔ گورے کو براڑ صاحب کی شکل میں ایک پوری کیمیونٹی تک رسائی نظر ا رہی تھی لہٰذا اسے براڑ صاحب کو نوکری دینے میں کوئی دقت نظر نہ آئی۔

انگلش فلمیں دیکھنے کا اثر تھا یا پھر شاید پتا جی سردار مکھن سنگھ کی بیٹھک میں لگے اس کیلینڈر پر بنی فوٹو کا اثر تھا جس میں ایک ہالی ووڈ اداکارہ ایک مرسڈیز بینز کار کے بونٹ پر توبہ شکن انداز میں بیٹھی تھی اور جو براڑ صاحب کے لاشعور میں رچ بس گئی تھی کہ براڑ صاحب کو نو عمری میں ہی مرسڈیز بینز گاڑیوں سے عشق کی حد تک لگاؤ پیدا ہوگیا۔ وینکوور میں دن میں کئی کئی بار مقامی اخبارات کے اشتہارات میں مرسڈیز بینز گاڑیوں کے ماڈل تکتے رہتے۔ مرسڈیز کو جب فیروزپوری پنجابی لہجے میں ماس ڈیز کہتے تو بڑے بھلے لگتے۔

کنبے کے بغیر اکیلے رہ رہے تھے تو کم اخراجات میں گزارہ سامنے کی بات تھی۔ چار پانچ رئیل اسٹیٹ ڈیلز کلوز کیں تو اتنی بچت ہو گئی کہ اپنا پرانا شوق پورا کرتے۔ کوئی اور ہوتا تو پس انداز کی ہوئی رقم کو دانشمندانہ طریقے سے سرمایہ کاری میں لگانے کا سوچتا مگر من ویر سنگھ براڑ سیدھے مرسیڈیز بینز کی ڈیلرشپ پر پہنچ گئے اور جب واپس آئے تو ایک عدد سلور کلر مرسیڈیز بینز سی کلاس کار کے مالک تھے۔ گاڑی ایک سال پرانی تھی لیکن بہت اچھی اور صاف ستھری حالت میں مل گئی تھی۔ وہ دن براڑ صاحب کی زندگی کا بہت خوںصورت دن تھا۔ دن بھر چہکا کئیے۔۔آفس کے ساتھیوں کو عمدہ ریستوران میں کھانا بھی کھلا ڈالا۔ دن میں کئی بار باہر نکل کر گاڑی کو فخر سے دیکھتے رہے۔ اس دن براڑ صاحب بہت ہی خوش تھے۔

براڑ صاحب کو پہلی بار مقامی ہسپتال کے ڈاکٹر اجیت سنگھ سے انکے باس ٹونی کیمبل نے ہی ملوایا تھا۔ ڈاکٹر اجیت ٹونی کے پرانے کلائیٹ تھے۔ وینکوور کے نواح میں دیسی کمیونٹی بہت کم تھی تو ڈاکٹر صاحب کو پنجابی کمیونٹی کے ہونہار لڑکے سے مل کر بہت خوشی ہوئی، اگلے ویک اینڈ پر ہی براڑ صاحب کو گھر پہ کھانے پر مدعو کر لیا۔ لوہڑی کا تہوار تھا براڑ صاحب ڈاکٹر اجیت سنگھ کے گھر پہ اپنا مکمل روایتی لباس اور پانچ ککے پورے کر کے گئے۔ ڈاکٹر صاحب کی پتنی بسنت کور تو براڑ صاحب کے وارے وارے گئیں، اتنی اپنائیت اور سنسکریتی والا بچہ اور وہ بھی دیار غیر میں کہاں ملتا تھا؟ فوراً ہی اپنی بیٹی پرم جیت کور سے متعارف کروایا۔۔دبلی پتلی تیکھے نقوش اور لامبے گھنے سیاہ بال اور جیسے دودھ کی دھلی رنگت والی پرم جیت کور براڑ صاحب کو پہلی نظر میں ہی گھائل کر گئی۔ پرم جیت کور کے عارض بھی جواں سال عمدہ ترشی ہوئی بھری بھری داڑھی، عنابی رنگ کی پگڑی والے اور گورے چٹے براڑ صاحب کو دیکھ کر قندھاری انار ہو گئے تھے۔ مکھن سنگھ براڑ کی اجازت سے وینکوور کے مقامی گورودوارہ صاحب میں ہی بیاہ کی رسومات ادا کی گئیں، براڑ صاحب کی طرف سے ٹونی اور فرنیچر والے گرُپریت سنگھ نے براڑ کی طرف سے براتی ہونے کی ذمہ دار ادا کی، برات سجی سجائی مرسیڈیز بینز سی کلاس پر ہی گئی تھی۔

پرم جیت کور کے آنے کے بعد براڑ صاحب کی زندگی جیسے بدل سی گئی تھی، اب نہ پہلے جیسی بے فکریاں نہ مستیاں، کچھ ذمہ دار سے ہو گئے تھے۔ یہ ضرور ہوا کہ اب براڑ صاحب جہاں بھی جاتے انکی پمی انکے ساتھ ہوتی۔ براڑ صاحب اپنی دلہن پرم جیت کور کو پیار سے پمی کہتے تھے۔ براڑ صاحب کے دو عشق انکی سی کلاس اور انکی پمی۔۔۔ پراپرٹی کا کام کروانے سٹی آفس جاتے تو بھی پمی ساتھ ہوتی۔ آہستہ آہستہ براڑ صاحب سٹی آفس میں ایک ہردلعزیز شخصیت بنتے گئے۔ سٹی آفس میں شاید ہی کوئی ہو جو ‘مان ویر’ اور ‘پامی’ سے واقف نہ ہو، گورے انکے نام ایسے ہی تلفظ کرتے تھے۔ پمی جب براڑ صاحب کے ساتھ سٹی آفس جاتی تو آفس سٹاف لیڈیز پمی کو یوں گلے ملتیں جیسے وہ ان میں سے ہی ایک ہو، اسکا ایک فائدہ یہ ہوا کہ براڑ صاحب کے پراپرٹی سے منسلکہ کام نہایت آسانی سے ہونے لگے۔ اس کا اثر انکے حلقہء کاروبار پر بھی نظر آنے لگا جو وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ اور پھر ایک دن براڑ صاحب نے ٹونی سے اجازت لے کر اپنی ذاتی رئیل اسٹیٹ کمپنی ‘براڑ رئیلیٹی انکارپوریشن’ رجسٹر کروا لی۔

براڑ صاحب کے کمیونٹی میں سوشل ورک، اثر و رسوخ یا شاخسانہ تھا یا سٹی آفس میں براڑ صاحب اور پمی کے تعلقات۔۔نتیجہ بہرحال یہ تھا کہ براڑ رئیلیٹی انکارپوریشن یعنی بی آر آئی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی تھی۔

انہی دنوں براڑ صاحب کو زمین کا ایک مناسب قطعہ نظر آیا اور براڑ صاحب نے اپنے اس پروجیکٹ کی داغ بیل ڈالی جو بعد ازاں انکی زندگی کا مطمع نظر ٹھہرا۔

یہ پروجیکٹ وینکوور کے نواح میں پہلے گردوارہ صاحب کی تعمیر تھا۔ براڑ صاحب کی ذاتی دلچسپی، اثر و رسوخ اور متعدد فنڈ ریزنگ ڈنرز کی بدولت اس زمین کا حصول ممکن ہو گیا تو ایک ٹرسٹ قائم کر کے زمین خرید لی گئی اور یوں گوردوارہ صاحب کا سنگِ بنیاد رکھ دیا گیا۔ اب اس گوردوارہ صاحب کی تعمیر و تکمیل براڑ صاحب کا اولین مقصد بن گیا۔ براڑ صاحب اس تعمیر کیلئیے فنڈز اکٹھے کرنے نہ صرف برطانیہ، جرمنی، فرانس اور انڈیا گئے بلکہ انہوں جہاں کہیں بھی کسی مخیر اور صاحب حیثیت پنجابی سردار کا پتہ چلا براڑ صاحب اس سے اس نیک مقصد کیلئیے فنڈز لینے پہنچ گئے۔ اس دن رات کی محنت اور دوڑ دھوپ کا ہی نتیجہ تھا کہ چند ہی برسوں میں گوردوارہ صاحب کی تکمیل مکمل ہو گئی۔ وینکوور اور اسکے نواح میں براڑ صاحب کا نام اب جانا پہچانا ہو گیا تھا۔

منویر سنگھ براڑ اور پمی براڑ اب تین بچوں کے ماں باپ بھی تھے۔

گوردوارہ صاحب کے روز مرہ اخراجات پورے کرنے کا براڑ صاحب نے یہ طریقہ نکالا کہ اپنی ہر کاروباری ڈیل مکمل کرنے کی بعد اپنے کلائینٹ سے گورودوارہ کیلئیے اچھی معقول رقم کا چندہ بھی رکھوا لیتے، کلائینٹ بھی چونکہ ڈیل مکمل ہونے پر خوش ہوتا تو وہ بھی اس نیک مقصد کیلئیے زیادہ مزاحمت نہ کر پاتا۔ براڑ صاحب اب کمیونٹی کی تقریباً ہر خوشی غمی کا لازمی حصہ ہوتے۔ کوئی مرگ ہو جاتی تو کریاکرم کے انتظامات کی بھاگ دوڑ براڑ صاحب کے ذمے ہوتی۔ کوئی شادی بیاہ ہوتا تو براڑ صاحب کی دستیابی کے حساب سے ہی بیاہ کی تاریخ رکھی جاتی۔ آہستہ آہستہ براڑ صاحب کمیونٹی کے ایک قابلِ انحصار لازمی جزو اور ایک بہترین منتظم و رہنما کے طور پر سامنے آتے گئے۔ براڑ صاحب سماجی محفلوں کی جان ہوا کرتے، باتونی تھے لہٰذا آپ کی موجودگی میں کسی دوسرے کو بولنے کا کم ہی موقع ملتا۔ براڑ صاحب کے گفتگو کے پسندیدہ موضوعات ہمیشہ وہی تین کے تین ہی رہتے۔ ۔بی آر آئی پمی اور مرسیڈیز سی کلاس۔

اس دوران براڑ صاحب نے سینکڑوں کاروباری سودے کئیے ہونگے، بہت سے سودے ایسے تھے جنہیں کسی طور صاف ستھرا نہیں کہا جا سکتا تھا کہ براڑ صاحب گاہک کو دائیں دکھا کر بائیں مار جایا کرتے تھے لیکن گوردوارے کے معاملے میں کسی کوتاہی کے قائل نہ تھے۔ براڑ صاحب دنیا داری اور روحانی معاملات کو الگ الگ رکھنے کے قائل تھے۔

جو لوگ براڑ صاحب کی سماجی خدمات سے فیضیاب ہو چکے ہوتے انکے لییے وہ بھگوان سمان تھے، مگر جو افراد براڑ صاحب کی کاروباری ہینکی پھینکیوں کا شکار ہو چکے ہوتے انکے لئیے براڑ صاحب کی سماجی خدمات اور چیریٹی محض ایک دکھاوا اور کاروبار میں اثر و رسوخ بڑھانے کا ایک طریقہ گردانتے۔ کچھ تو اسے واضح طور پر

(Smokescreen of charity for vested interests)

کا نام دیتے تو دوسرے اسے کھلے عام

(Charity as a tool to future proof the investments)

کہتے۔

لیکن کسی قسم کی تنقید براڑ صاحب کے عزم کو ڈگمگا نہ سکی، گوردورہ پربندھک کمیٹی پر بھی براڑ صاحب کا کنٹرول مضبوط رہا، اگر کوئی کبھی براڑ صاحب پر انگلی اٹھاتا تو اس سے نمٹنے کیلئیے براڑ صاحب نے بہت دلچسپ طریقہ اختیار کر رکھا تھا۔ فوراً شام کو تنقید کرنے والے کی گھر پہنچ جاتے اس کی تمام باتوں سے اتفاق کرتے، اسکی سمجھداری کی تعریف کرتے اور گورداورہ کی انتظامی کمیٹی میں شامل کر کے انتظامی فنڈز جمع کرنے کی ذمہ داری سونپ دیتے، شاید ہی کسی نے دو مہینے پورے کییے ہوں، زیادہ تر تنقید کرنے والے پہلے دس بارہ دنوں میں ہی الگ ہو کر معذرت کر لیتے اور ہمیشہ کیلئیے اپنا منہ بند کر لیتے۔

گوردوارہ مکمل ہوا تو براڑ صاحب نے پراجیکٹ کے نئے فیز کے طور پر نئی نسل کیلییے لائیبریری بنانے کا اعلان کر دیا۔ یوں اب وینکوور کے نواح میں پنجابی کمیونٹی کی تمام تر توانائیاں لائیبریری مکمل کرنے میں صرف ہونے لگیں۔

براڑ صاحب اور پمی کے تینوں بچے اب بڑے ہو رہے تھے من پریت کور شادی کے قابل ہو رہی تھی۔ اس سے چھوٹے دونوں جوہر سنگھ جولی اور موہن سنگھ بنٹی بھی اب یونیورسٹی جاتے تھے۔ جولی براڑ باپ کے ساتھ بی آر ائی چلانے میں مدد کرتا تھا لیکن بنٹی براڑ کا رجحان پڑھائی لکھائی کی طرف زیادہ تھا، وہ ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔

لائبریری مکمل ہوئی تو براڑ صاحب نے پنجابی بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئیے سکول بنانے کا اعلان کر دیا۔ سکول مکمل ہوا تو گوردوارے کی توسیع کا معاملہ درپیش آ گیا اور پھر سپورٹس کامپلیکس ۔ ۔ یوں پچھلے تیس سال سے کسی نا کسی طور براڑ صاحب کا کوئی نہ کوئی کمیونٹی پروجیکٹ ہمیشہ جاری رہا جس کے لئیے براڑ صاحب کو ہمیشہ فنڈ جمع کرنے کی ضرورت رہتی اور یوں براڑ صاحب کو نہ صرف کمیونٹی میں توصیفی نظروں سے دیکھا جاتا بلکہ الٹا معاملات پر انکے کنٹرول کو سرایا جاتا ۔ اس دوران براڑ صاحب کو کبھی بھی غیرجانبدارانہ آڈٹ سے نہیں گزرنا پڑا۔

یہ کبھی بھی واضح نہ ہو سکا کہ براڑ صاحب کی کمپنی بی آر آئی کی وجہ سے سماجی پروجیکٹس کو مدد حاصل ہوتی ہے یا سماجی پروجیکٹس کی بدولت بی آر آئی زیادہ ترقی کر رہی ہے۔ ۔یہ معاملہ یمیشہ ایک معمہ ہی رہا۔

براڑ صاحب اب ساٹھ سے اوپر کے ہو چکے تھے۔ انکو اب بھی مرسڈیز سی کلاس سے ویسا ہی عشق تھا، اب بھی جب وقت ملتا دھوپ میں اپنی سی کلاس کو لشکانے لگتے، پمی اب بھی انکی توجہ کا مرکز اور ایک بھروسہ مند مشیر تھی۔ چار جماعت پاس ہونے کے باوجود آج بھی فیروپوری پنجابی لہجے میں وہسے ہی اعتماد سے انگریزی بولتے تھے۔

ایک دن براڑ صاحب ایک گروسری سٹور میں گروسری کرنے چلے گئے، ایک دم نظر پڑی تو دیکھا کہ ڈیڑھ دو سال کا ایک بہت ہی پیارا سا بچہ گروسری آئل کے درمیان میں گرتا پڑتا چلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بچے کے ماں باپ شاید جمیکن تھے لیکن اس وقت بچے کے ساتھ نظر نہیں آ رہے تھے۔ درحقیقت بچے کی ماں پچھلے گروسری آئل میں کچھ ڈھونڈنے میں مصروف تھی کہ بچہ نظر بچا کر نکل آیا۔

براڑ صاحب کو بچے پر پیار آیا اور انہوں نے اسے گود میں اٹھا کر گال پر پیار کر لیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب بچے کی جمیکن ماں کی نظر پڑ گئی اور اس نے شور مچا دیا۔ جمیکن افراد قدرتی طور پر مزاج کے تیز ہوتے ہیں اور اکثر ان سے معاملات کرنے میں مشکل درپیش آتی ہے۔ سٹور کا عملہ جمع ہو گیا اور بچے کی ماں کے مطالبے پر پولیس کو کال کر دی گئی، پولیس آئی اور انہوں نے سٹور کے ویڈیو کیمروں کی ریکارڈنگ کو چیک کیا تو براڑ صاحب واضح طور پر بچے کو اٹھاتے اور گال پر پپی کرتے دیکھے جا سکتے تھے۔ قانونی طور پر یہ ایک سنگین جرم تھا۔ براڑ صاحب کو زندگی میں پہلی بار پولیس کار میں پولیس سٹیشن جانا پڑ گیا۔ بچے کی ماں الزامات واپس لینے یا صلح نامے پر تیار نہ تھی، براڑ صاحب کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔ براڑ صاحب کو اپنی اس بے عزتی کا شدید قلق تھا۔ ایسی صورتحال کا انہوں نے زندگی بھر سامنا نہیں کیا تھا، الزام کی نوعیت ایسی تھی کہ براڑ صاحب نے اٹر و رسوخ والے جس جاننے والے کو بھی کال کی انہوں نے قانونی معاملات کو اپنے ہاتھ میں نہ لینے کا مشورہ دے کر اپنی کھال بچا لی۔

پولیس نے براڑ صاحب کا بیان ریکارڈ کیا تو انہوں نے روزمرہ پنجابی محاورے کی انگریزی کر کے بیان ریکارڈ کروا دیا کہ

Child was beautiful, I was loving him. 

یعنی بچہ بہت پیارا میں تو اس کو صرف پیار کر رہا تھا۔

مقامی قانون کی نظر میں یہ نرا اعترافِ جرم تھا۔ اس بیان کے بعد براڑ صاحب کو وقتی طور پر جیل بھیج دیا گیا۔ مہینے بھر کے اندر اندر بی آر آئی کے تمام کاروباری سودے منسوخ اور گاہکوں کی طرف سے معذرت آ گئی۔ جولی سنگھ باپ کے بغیر شدید کاروباری مشکلات کا شکار تھا۔ بینکوں تک مقدمے کی نوعیت پہنچی تو انہوں نے کمپنی کے ذمہ واجبات وصولی کے نوٹس بھجوانے شروع کر دئیے۔ ایسے میں کسی نے جولی سنگھ کو ایک اچھے وکیل کا پتہ بتا دیا۔ جولی نے وکالت نامہ سائن کر دیا تو وکیل نے ابتدائی بھاگ دوڑ میں ہی مقدمے کی کمزوریوں کو بھانپ لیا۔ وکیل سمجھ گیا کہ جمیکن عورت صرف پیسہ بنانا چاہتی ہے اور کچھ نہیں۔ اس نے جولی براڑ سے بات کی اور جولی نے ماں سے مشورہ کیا۔ براڑ صاحب کو دس برس قید کا سامنا تھا۔ پولیس کی تفتیش، اور تمام ثبوت براڑ صاحب کے خلاف تھے۔ بینکوں کے واجبات، وکیل کے اخراجات اور جمیکن عورت کا رقم کا مطالبہ کل ملا کر اس قدر تھے کہ جولی، بنٹی اور پمی کو ایک بڑا فیصلہ کرنا تھا۔ اور پھر فیصلہ کر لیا گیا۔۔بی آر ائی کی بینکرپسی کردی گئی کمپنی کے جو اثاثے تھے وہ بینکوں نے لے لئیے۔ براڑ صاحب کا گھر بیچ کر وکیل کی مدد سے جمیکن خاتون کے ساتھ سیٹملمنٹ کر لی گئی اور براڑ صاحب کی پسندیدہ سی کلاس بیچ کر وکیل کی فیس ادا ہو گئی۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مدعیہ خاتون نے الزامات واپس لے لئیے ہیں، خاتون نے عدالت میں تصدیق کر دی اور یوں براڑ صاحب عدالت سے گھر واپس آ گئے۔ گھر پہنچ کر براڑ صاحب کو رہائی کی قیمت معلوم ہوئی۔۔اسی رات براڑ صاحب کو شدید برین ہیمبرج ہوا۔ ۔بروقت ایمبولینس آ جانے اور ہسپتال پہنچ جانے سے جان تو بچ گئی مگر براڑ صاحب کے ذہنی اور اعصابی نظام پر شدید برا اثر پڑا۔ اب براڑ صاحب پچھلے چھ مہینے سے مرکز برائے بحالی میں داخل تھے۔

نرس کے اشارہ کرنے پر جولی سنگھ نے دیکھا تو من ویر سنگھ براڑ ویل چئیر پر بیٹھے اب بھی دیوار پر لگی ایک تصویر کو مسلسل تکتے جا رہے تھے۔ جولی نے دیکھا تو وہ سمجھ گیا کہ پاپا تصویر میں سمندر کنارے کھیل کود میں مصروف ایک فیملی کو دیکھ کر جذباتی ہو رہے ہیں، مگر جولی یہ نہ دیکھ سکا کہ تصویر میں ذرا پرے ایک مرسڈیز سی کلاس بھی ہے اور یہ کہ اسے دیکھ کر براڑ صاحب کی آنکھیں نم ہیں۔

Read Previous

چاندنی رات کے مسافر

Read Next

سرشار آدمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Most Popular