• جنوری 20, 2025

بلیو اوور کوٹ

 

گُرنیک سنگھ بھی چل بسا، چوبیس برس سے زائد ہوا چاہتے ہیں کہ اس پردیس دھرتی پر ہمارے قدم نئے نئے وارد ہوئے تھے، نائن الیون کے بعد کا دور اور ہر سو غیر یقینی صورتحال کا دور دورہ تھا۔


یہ وہ دور تھا جب یہاں کے جنم باسیوں کیلئیے بھی نوکریاں مشکل ہو چکی تھیں کُجا کہ ایک ساؤتھ ایشئین براؤنی امیگرینٹ کو اسکی من پسند جاب مل پاتی۔ فیملی کے ساتھ آئے نئے امیگرینٹس کے پاس کوئی بہت زیادہ لمبی چوڑی فہرستِ انتخاب نہیں ہوا کرتی، یہی صورتحال میرے ساتھ بھی درپیش تھی۔ چار و ناچار بطور نوکری زندگی میں پہلی بار ایک آٹو موٹِو فیکٹری کا درون دیکھنے کو ملا۔ گرنیک سنگھ سے یہیں پہ پہلی ملاقات ہوئی تھی۔


فیکٹری میں تنخواہ نسبتاً بہتر تھی اور ماحول بھی عمدہ تھا۔ نسل پرستی تقریباً نہ ہونے کے برابر اور گورے اور ساؤتھ ایشین براؤنز ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ کام کرتے۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات نہایت پرامن اور دوستانہ تھے۔ کام دلچسپ تھا، ہم روبوٹک مشینوں پر فورڈ کاروں کے انجن کے پرزہ جات بناتے۔ زیادہ تر کام روبوٹک مشینوں کی نگرانی کرنے کا ہی ہوتا۔ یہیں پر میں نے پہلی بار پی ایل سی، سی این سی اور نیو میٹکس جیسی ٹیکنالوجیز کو سیکھا تھا۔ ہم گرنیک سنگھ کو نِک کہہ کر بلاتے، درمیانے قد، رنگت وہی ساؤتھ ایشینز جیسی سانولی اور سر اوپری حصہ تقریباً فارغ البال ہو چکا تھا۔ ہر وقت ڈاکٹروں کی طرح ایک ڈارک بلیو کلر کا اوور کوٹ پہنے رکھتا۔ نِک اس فیکٹری میں لیڈ ہینڈ تھا یعنی اس کا کام مشینوں پر تیار پروڈکٹس کو اپنا فورک لفٹ چلاتے ہوئے اٹھا کر وئیر ہاؤس لے جانا اور نیا خام مال مشینوں پر تیاری کیلئیے پہنچانا تھا۔ میرے برادرِ نسبتی بھی چونکہ اسی فیکٹری میں کام کرتے تھے تو نِک مجھے ہمیشہ برادرِ نسبتی کے نام کا حوالہ دے کر انکا ‘پروہنا’ کہہ کر مخاطب کیا کرتا۔ شروع میں تو میں سمجھتا رہا کہ وہ مجھے پروہنا (یعنی مہمان) کینیڈا میں نیا ہونے کی نسبت سے کہتا ہے لیکن جب اس بات کو بھی دو برس گزر گئے تو میں نے ایک دن کہہ دیا کہ اب تو میں پرانا ہو چکا ہوں اب کیوں پروہنا (یعنی مہمان) کہتے ہو؟ نِک شدید حیرت سے میرا چہرے تکتے ہوئے بولا تو کیا اب تم فلاں کے پروہنے نہیں رہے؟ ‘کاکی نال کوئی پھڈا ہو گیا سی؟’


تب مجھے اندازہ ہوا کہ چڑھدے پنجاب اور شاید لہندے پنجاب میں بھی داماد کو احترام سے پروہنا کہا جاتا ہے۔ میں نے اسکے بعد نِک کے مجھے پروہنا کہنے پر کبھی اعتراض نہ کیا۔


نِک کے بارے میں مشہور تھا کہ ایک پوری اپارٹمنٹ بلڈنگ کا مالک ہے، مگر مجھے یقین نہیں آتا تھا، ایک دن کام سے بریک ملی تو میں نے باتوں باتوں میں کنفرم کرنے کی غرض سے پوچھ لیا، میں نِک کو ہمیشہ لالہ کہہ کر بلاتا تھا، سو میں نے کہا۔۔لالہ یہ اپارٹمنٹ بلڈنگ آپ نے کس سن میں خریدی تھی؟ نِک بولا۔۔”کونسی والی۔۔۔لندن والی یا کینیڈا والی؟” ۔ ۔


اور میں حیرت سے اسکی شکل تکتا رہ گیا۔۔۔نِک کینیڈا کے علاوہ لندن انگلینڈ میں بھی اپارٹمنٹ بلڈنگز کا مالک تھا۔ نِک پوری فیکٹری میں فیکٹری کے آپریشنز مینیجر سمیت سب سے امیر آدمی تھا لیکن دن بھر فورک لفٹ چلاتا، فیکٹری کو اضافی کام کی ضرورت ہوتی تو اوور ٹائم میں ہفتے کے چھ دن بارہ بارہ گھنٹے کام کرتا۔ نہ دن دیکھتا نہ رات۔۔نِک ہمیشہ اپنے فورک لفٹ پر ٹِیں ٹیِں کرتا محنت کرتا پایا جاتا۔ نہایت منکسر المزاج اور سادہ طبع۔ بریک میں لنچ روم میں ہمارے ساتھ ہی ںیٹھ کر کھانا کھاتا، پگڑی نہیں پہنتا تھا مگر گردوارہ صاحب باقاعدگی سے جاتا۔ نِک کی تین بیٹے تھے، بیٹوں کی تعلیم اور اپنے کلچر کی حساب سے تربیت پر نِک بہت توجہ دیا کرتا۔


پھر ایک وقت ایسا آیا کہ فیکٹری کے مالکان نے اچھی آفر ملنے پر پلانٹ ایک امریکن کمپنی کو فروخت کر دیا۔ امریکن کمپنی کو صرف فورڈ کمپنی کے آرڈر حاصل کرنے کی ضرورت تھی پارٹس وہ اپنے امریکن پلانٹس پر بھی بنا سکتے تھے، لہٰذا انہوں نے ہمارا پلانٹ بند کر دیا۔ مجھ سمیت سب کے سب بے روزگار ہو گئے۔ میں چونکہ تعلیم جاری رکھے ہوئے تھا اور اب نائن الیون کے اثرات بھی زائل ہو چکے تھے تو مجھے جلد ہی اپنے سابق آئی ٹی فیلڈ میں جاب مل گئی۔ نِک کے بچے بھی اب بڑے ہو چکے تھے سو اس نے اپنے ایک بیٹے کو ساتھ شامل کر کے ایک آٹو ریپئیر شاپ یعنی گیراج خرید لیا۔


نِک اسی سٹریٹ پر رہائش پذیر تھا جہاں میرے سسرال کا گھر تھا لہذا آتے جاتے اس سے ملاقات ہو جایا کرتی۔ بہت مطمئن تھا، ایک دن بتا رہا تھا کہ بڑے لڑکے کی شادی کر دی ہے اور اسے کیلگری میں جاب مل گئی وہ اب اپنی پتنی کے ساتھ کیلگری شفٹ ہو گیا ہے۔ آٹو رپئیر شاپ بھی خوب چل رہی ہے اور اب ایک اور اپارٹمنٹ بلڈنگ کا سودا کرنے والا ہے۔ ایک دن ملاقات ہوئی تو میں نے کہا ۔۔لالہ تمھارے جتنے پیسے میرے پاس ہوتے تو میں تو کب کا ریٹائیرڈ ہو چکا ہوتا، کیا ضرورت ہے اتنی محنت کی؟ کہنے لگا۔۔۔ریٹائیرڈ ہو کر پھر کیا کروں گا؟ اگر پہلے محنت نہ کرتا تو آج ایک بلڈنگ بھی نہ ہوتی، اگر اب محنت نہ کروں تو کل ایک بلڈنگ بھی نہ رہے گی۔ میں لاجواب سا ہوگیا۔


پھر یہ ہوا کہ مجھے ایک بڑی آئل کمپنی کے ساتھ ایک بڑا آئی ٹی پراجیکٹ مل گیا۔ معاوضہ اچھا تھا، صرف یہ تھا کہ مجھے دوسرے صوبے میں جا کر کام مکمل کرنا تھا لیکن چونکہ کمپنی رہائش اور مہینے کے دو فری ائیر ٹکٹس آفر کر رہی تھی تو میں نے آفر قبول کر لی۔ یوں میرا نِک سے رابطہ کٹ گیا۔


تقریباً سال بھر کے بعد ایک دن میں کام سے واپس آیا ہوا تھا اور بیگم کے ساتھ سسرال کے گھر سے واپس نکل رہا تھا تو نِک نظر آ گیا، گاڑی میں تھا اور اس نے گاڑی ڈرائیو وے کے پاس آ کر روکی تھی۔ اج بھی وہی ڈاکٹروں جیسا بلیو اوور کوٹ پہنے ہوئے تھا، بہت تپاک سے ملا، بتا رہا تھا کہ باقی دونوں کاکوں (وہ اپنے بیٹوں کو کاکے کہا کرتا) کی شادیاں بھی کر دی ہیں، دوکان بھی خوب چل رہی ہے گھر میں نئی بہوئیں آ گئی ہیں خوب رونق ہے۔ میں نے مسرت اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور وہ پھر میرے کام بارے پوچھتا رہا۔


چند ماہ گزرے، پھر ایک دن سر راہِ ملاقات ہوئی، آج بلیو اوور کوٹ نہیں پہنا ہوا تھا۔ کچھ بجھا بجھا سا تھا، میں نے خیریت دریافت کی تو کہنے لگا۔۔’دونوں کاکیاں دونوں کاکوں کو پٹ کر لے گئی ہیں’ مجھے کچھ بات سمجھ نہ آئی۔۔کچھ مزید کریدا تو پتہ چلا کہ نِک کی دونوں بہوئیں کسی طور والدین کے گھروں سے دور رہنے پر رضامند نہیں تھیں، یہ صورتحال انہوں نے شادی ہو جانے کے بعد پیدا کی حالانکہ شادی سے پہلے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی گئی تھی۔ لہٰذا دونوں چھوٹی بہوؤں نے اپنے شوہروں پر زور دیا کہ الگ گھر لیا جائے اور گھر ایسی جگہ ہو جہاں انکے والدین کے گھر قریب ہوں۔ یہ نئی نسل کی لڑکیاں تھیں، انہیں روزانہ ماں کو ملنے جانا تھا۔ لیکن نِک نے مشترکہ خاندانی نظام کے خیال سے ایک بڑا گھر لے رکھا تھا۔ نِک کا بڑا بیٹا پہلے ہی کیلگری رہتا تھا جب کہ باقی دونوں بیٹوں نے نہ صرف ماں باپ سے مشورہ نہیں کیا بلکہ صرف فیصلہ سنایا تھا کہ ہم فلاں شہروں میں شفٹ ہونے لگے ہیں۔  نِک کو اصل افسوس اپنے دونوں بیٹوں پر تھا جنہوں نے پتنیوں کے آگے یوں سر خم کئیے کہ نِک کے دل کو اچھا خاصی ٹھیس لگ گئی۔

 

ایک بیٹا تو بیوی کے میکے کے شہر میں شفٹ ہونے کے باوجود  کام کے سلسلے میں روزانہ ڈیڑھ گھنٹہ ڈرائیو کر کے واپس اپنے ہی شہر آیا کرتا اور پھر شام کو واپس سسرالی شہر ڈرائیو کر کے جاتا۔ نِک کیلئیے یہ صورتحال بہت تکلیف دِہ، بے عزتی اور بے وفائی سے بھرپور تھی۔


نِک نے جن بچوں کیلئیے عمر بھر بلیو اوور کوٹ نہیں اتارا تھا وہی بچے شادیاں ہونے کے چند ہفتوں بعد ہی طوطا چشم ہو چکے تھے۔ تین تین اپارٹمنٹ بلڈنگز کے مالک نِک کا اپنا گھر خالی ہو چکا تھا، چند دِن بعد نِک نے اپنی آٹو ریپئیر شاپ بھی فروخت کر دی۔ اسکا شاپ پر جانے کو من ہی نہیں کرتا تھا۔ بیٹوں نے ملنے آنا بھی کم کر دیا تھا، بلیو اوور کوٹ پہنے بھی عرصہ ہو چکا تھا۔ اب جب بھی ملتا تو چہرے پہ ملال اور تاسف ہوتا۔ ہارے ہوئے جواری کی طرح کم بات کرتا، کبھی کاکوں کی بےوفائی کا ذکر کرتا تو کبھی کاکیوں کی بیوقوفی کا دھیمے لہجے میں تذکرہ۔ گھر میں دونوں بڈھا بڈھی دن بھر ایک دوسرے کی شکل تکتے رہتے۔


پھر ایک اتوار کی صبح میرے برادرِ نسبتی کا فون آیا۔۔’یار نِک فوت ہو گیا’۔ دل میں گھونسا سا پڑا ابھی دو دن پہلے ہی تو ملا تھا۔ چوبیس برس سے زائد کا تعلق تھا، رات میں کہیں سوتے میں ہی ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ بیوی کو بھی علم صبح ہی ہو سکا۔ عمر بھر نیلا اوول کوٹ پہنے سخت محنت کرتا رہا اپنے کاکوں کے بہتر مستقبل کیلئیے اپارٹمنٹ بلڈنگ پہ بلڈنگ کھڑی کرتا رہا، جب سب کا مستقبل محفوظ ہو گیا تو کاکے دغا دے گئے۔

تعزیت کیلئیے ہم ںھی گئے، گھر میں تینوں کاکے موجود تھے، کسی کے چہرے پہ ہلکی سے شرمندگی بھی نظر نہ آئی، باپو کے جانے پر مغموم ضرور تھے۔ تینوں کاکیاں بہرحال نِک کے اثاثوں کے بارے فکر مند نظر آئیں۔ سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے ہاتھ نچا نچا کر بحث کرتی رہیں۔ بوڑھی ماں کی فکر کسی کو نہ تھی۔ میزبان کی اجازت سے واش روم استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی تو دیکھا کہ واش روم میں گرنیک سنگھ کا بلیو اوور کوٹ اب بھی ٹنگا ہوا ہے، وہی اوور کوٹ جسے پہن کر اس نے تین بلڈنگز کھڑی کر دی تھیں، کبھی نہ دن دیکھا اور نہ رات، ملئینئیر ہونے کے باوجود محنت کی عادت اور انکساری ترک نہ کی۔ اس بلیو اوور کوٹ کا انجام بہرحال اچھا نہ ہوا۔ مگر شاید یہی دنیا داری ہے، اچھائی کا انجام اچھائی اور برائی کا انجام برائی شاید کتابوں اور پریوں کی کہانیوں تک ہی محدود ہے۔

Read Previous

قدرِ ہزار

Read Next

کانٹا

0 Comments

  • بہت عمدہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Most Popular